بہتے نالے، ٹوٹی سڑکیں، گھنٹوں ٹریفک جیمز، دھول، مٹی، آلودگی، کچرے کے انبار۔۔۔یہ ہوا کرتا تھا نقشہ چند برس پہلے کے کراچی کا۔ ۲۰۰۹ کے کراچی میں گو کہ سب کچھ ہی اچھا نہیں ہوگیا، مگر بہت سی چیزیں جنکی میں نے نشاندہی کی، وہ اب اتنی نمایاں نہیں۔ کراچی شہر جو کہ مملکتِ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور بلا مبالغہ پاکستان کادرست "چہرہ" ہے، اس شہر کی اکثریتی جماعت کے نامزد کردہ ناظم کی زیرِ نگرانی ستاروں کا سفر تو نہیں مگر پھر بھی بہت بلندیوں کا سفر کر رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کو مگر یہ ترقی نہیں بھاتی۔ وہ اعتراض کرتے پائے جاتے ہیں۔۔ کہتے ہیں کہ جو ہورہا ہے غلط ہورہا ہے، اس طرح نہیں ہونا چاہیے۔
کچھ لوگوں نے تو مصطفیٰ کمال کا نام ہی مصطفیٰ "کدال" رکھ ڈالا۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ کیا غلط ہورہا ہے اور کیا صحیح۔۔۔
پہلے تو ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ترقی ہوتی کیا ہے اور کیا اجزاء ترقی کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ ترقی راتوں رات تبدیلی کا نام نہیں۔ ترقی "عدم" سے "وجود" میں آجانے کا نام نہیں۔ ہمارے کچھ بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ ترقی "کُن" سے ہوتی ہے (معاذاللٰہ)۔۔۔کہ بس جناب جو بھی صاحبِ اقتدار اب کے آیا ہے، وہ بس آتے ہی سب کچھ ٹھیک کردے۔ ارے بھائی ترقی ایسے تھوڑی ہوتی۔ ترقی ایک طویل المدتی عمل ہے۔ جس ملک میں تعلیم کا یہ حال ہو کہ بورڈ کے امتحانات رٹا لگا کر اور "گیس پیپرز" کے ذریعے دیے جاتے ہوں، جہاں تحقیق سے ایسے کنی کترائی جاتی ہو گویا یہ اچھوت کی بیماری ہو، وہاں چند سالوں میں "ترقی" کے خواب دیکھنا حماقت کا درجۂ اخریٰ ہے۔
مصطفیٰ کمال نے جو کچھ بھی کراچی میں کیا ہے، اسے رجائیت پسندوں کی نظر میں تو "ترقی" کہا جا سکتا ہے، مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے، خود مصطفیٰ صاحب بھی یہی فرماتے ہیں۔ دراصل انہوں نے "ترقی کا سفر" شروع کیا ہے۔ ان کے دور میں ہمیں یہ احساس ہونا شروع ہوا ہے کہ ترقی کیسے کی جاتی ہے۔ عوام کی رقم عوام کی بہبود پر کس طرح خرچ کی جاتی ہے، یہ ہمیں مصطفیٰ کمال نے بتایا۔
رہا سوال کہ جو ترقی کا سفر جاری ہے، وہ "بین الاقوامی" معیارات کے مطابق نہیں ہے۔ تو بھائی یہ باسٹھ سالہ مملکت چین نہیں ہے، یورپ یا امریکہ نہیں ہے۔ یہ جاگیرداروں کی جنت ہے، وڈیروں کی سرزمین ہے۔ سیاست دانوں کے تعیش کی جگہ ہے، جہاں وہ ۵ سالہ اقتدار فقط آسائشیں حاصل کرنے کے لیے سنبھالتے ہیں۔ اگر میں یہ حساب بتانے بیٹھوں کہ ہمارے محصولات کی رقم کا کتنا بڑا حصہ سیاستدانوں اور "اونچے گریڈ" کے بیورو کریٹس کے الائونسز پر خرچ ہوتا ہے تو موضوع سے ہٹ جائوں گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ایک "استحصالی" معاشرہ ہے۔ استحصالی معاشروں میں ترقی یا تو مصنوعی ہوتی ہے یا بہت سست۔ کیونکہ معاشرتی عوامل اور ہمارے رویے ترقی کو مانع ہوتے ہیں۔
جو لوگ مصطفیٰ کمال کے مخالف ہیں، اس سے یہ استدعا ہے کہ ٹھنڈے دماغ سے سوچیے۔۔۔ آپ امریکہ میں نہیں رہ رہے، اپنے آپ کو یہ کہہ کر دھوکے میں خدارا نہ رکھیے کہ "یہ ملک اللہ کی عطا ہے، اور دنیا بھر میں جتنا ٹیلنٹ ہے اس سے زیادہ اس ملک میں پایا جاتا ہے"۔ خدارا اس بکواس کو لگام دیجیے۔ اپنے آپ کو پہجانیے۔ یہ ملک یا آپ یا ہم آسمان سے نہیں اترے۔ ہم بہت برے ہیں۔۔اور ہمیں اس برائی کو اپنے اندر سے نکالنا ہے۔ اگر کوئی شخص تبدیلی کی بات کرتا ہے تو خواہ مخواہ سو فیصد کی تمنا مت رکھیے۔ کیونکہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ باسٹھ برسوں میں کوئی بھی شخص نہیں کر سکا۔ وہ غلط بھی کر رہا ہوگا یقیناً۔۔۔مگر یہ آج کا غلط کل کے "صحیح" کی بنیاد ہے۔ اگر آج آپ ترقی کی "کوالٹی" سے ناخوش اور پریشان ہیں تو فکر نہ کیجیے۔ مصطفیٰ کمال کے بعد آنے والا اس سے بہتر کرے گا، کیونکہ اس شخص
نے ایک "طرزِ عمل" کی بنیاد رکھی ہے، جو کہ پہلے سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔
اگر اگلے مئیر یا ناظم کو مصطفیٰ کمال کے دور میں بننےوالے کسی فلائی اوور کو گرانا پرے یا کسی سڑک کو کھودنا پڑے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں بلکہ ترقی کا عمل ہے۔ یہ ایسے ہی جاری رہتا ہے، اور پاکستان کے معروضی حالات میں ترقی اس طور ہی ممکن ہے۔
تنقید کیجیے، مگر ستائش کرنا بھی نہ بھولیے۔ اچھے کام کی تعریف کرنا تو کام کرنے والے کا حق ہے۔ ہاں مگر جو چیز غلط ہورہی ہو اس سے پہلو تہی بھی نہ کیجیے۔ احساس دلائیے کہ یہ غلط ہورہا ہے، تو ممکن ہے اگلی دفعہ میں سب کچھ بہتر ہو، اور یہی ہم سب کی تمنا بھی ہے۔ کوئی شخص یا ادارہ مکمل اور آئیڈیل نہیں ہوتا، خاص کر ہمارے پیارے ملک میں تو ایسا ناممکن ہے۔ تو امید رکھیے مگر حقیقت پسندی کے ساتھ!۔
والسلام
ترقی کے لیے پر امید
محمد امین قریشی