انسانی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے شہر کی سڑک۔ لہراتی بل کھاتی اپنی منزل کی طرف رواں دواں۔ مگر اس سڑک کی موجودہ شکل کے نیچے، کہیں نیچے اس کا ماضی دفن ہوتا ہے۔ مختلف وقتوں کولتار ڈال ڈال کر اسے پختہ بنایا جاتا رہتا ہے۔ کہیں ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرنے کے لیے یا کبھی کسی تشریف لانے والے صدر یا وزیرِ اعظم کے استقبال کے لیے۔ تہہ در تہہ کولتار بچھ بچھ کر اس سڑک کی وہ شکل ہوجاتی ہے جو آپ ہم دیکھتے ہیں۔ اور ضروری نہیں وہ شکل اچھی بھی ہو!!
زندگی کی اس سڑک پر کتنے ہی مقام آتے ہیں۔۔ کتنی ہی تہیں چڑھ جاتی ہیں، کتنے ہی روپ ہم بدل لیتے ہیں اور ۔۔ کتنے راستے بدلتے ہیں۔۔ مگر آپ نے دیکھا ہوگا۔ جب سڑک کھودی جاتی ہے تو اس کی نچلی پرتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ لیکن ہر پرت واضح نہیں ہوتی۔ اپنا الگ تشخص وہی پرت رکھتی کہ جس کا مال مسالہ مضبوط اور جاندار ہو۔انہی جاندار پرتوں میں سے ایک انسان کا بچپن ہوتا ہے۔
آپ کتنے ہی خول چڑھا جائیں۔ کتنی ہی تہوں کے اوپر بالانشین ہوں۔ آپکا حال، آپکا چہرہ کتنا ہی جاذب و خوبصورت کیوں نہ ہو، زندگی کی سب سے خوبصورت تہہ میں کنویں کی سی گہرائی والا بچپن ہوتا ہے۔ ایسا کنواں کہ جس میں آپ نہ بھی پکاریں تو ماضی کی بازگشت یہ آپکو خود بخود سناتا رہے گا۔ آپ اسے جتنی بھی کوشش کر کے بھلانا چاہیں، یہ آپ کو رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ کبھی خلوت میں آپکو رلا دیگا، تو کبھی جلوت میں قہقہے لگوا دیگا۔۔۔ یا کبھی کسی سوچ میں گم آپ یکایک بچپن کی کوئی بات یاد آنے پر بے اختیار مسکرا اٹھیں گے۔۔
پچھلے دنوں ہم کراچی کے ایک پسماندہ سے علاقے لانڈھی میں اپنے آبائی گھر گئے تھے۔ ہم نے اسی گھر میں آنکھ کھولی، وہی پلے بڑھے، وہیں کھیلے کودے اور وہیں شعور کی ابتدائی منازل طے کیں۔ ہماری سنہری یادیں اسی گھر اور اسی محلے سے وابستہ ہیں۔ بچپن کے دن ایسے لگتے ہیں جیسے وقت ٹھہر گیا ہو اور ہر شئے پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی ہو۔۔
وہ گھر ہمارے دادا کو حکومت کی طرف سے ملا تھا۔ ایک چھوٹا سا کوارٹر تھا جو قیامِ پاکستان کے کچھ سالوں بعد بسائی جانے والی لانڈھی کولونی کا حصہ تھا۔ کوارٹر ملنے کے بعد وقتاً فوقتاً ابو نے آپ پاس کی خالی زمین حکومت سے لیز کرالی تھی۔ یوں ایک کمرے کا کوارٹر کئی کمروں پر مشتمل بڑے سے گھر میں تبدیل ہوگیا تھا۔ اس گھر کی خاص بات یہ تھی کہ ہمارےابونے جب بھی "منّے مستری" سے اس گھر میں کام کروایا، ساتھ میں خود بھی لگ جاتے تھے۔ یوں اس گھر کی بنیادوں میں ہمارے والدِ محترم کا خون پسینہ محاورتاً ہی نہیں، حقیقتاً بھی شامل رہا۔ اس گھر کی ایک ایک دیوار اور ہر ہر چھت میں ابو کی محنت شامل تھی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ کچھ تو ان کو ہمیشہ سے سخت محنت کی عادت اور شوق رہا، دوسرے انہوں نے میٹرک کے بعد کچھ عرصے تک سول ڈرافٹنگ کی تربیت حاصل کی تھی۔ کبھی وہ ہتھوڑی چھینی لے کر دیوار میں آرچ بنا رہے ہوتے تو کبھی سمینٹ کی بھاری بھرکم سلیبیں لکڑی کی سیڑھی سے چڑھتے ہوئے "منّے مستری" کو تھما رہے ہوتے۔ اورہمیں اس بات پر ہمیشہ فخر رہا کہ ہم اپنے ابو کے ہاتھ کے بنے ہوئے خوبصورت گھر میں رہے۔
اس گھر کے ساتھ ابو نے ایک چھوٹا سا مگر بہت ہی خوبصورت پائیں باغ بنا رکھا تھا جس میں دنیا جہاں کے پودے اور پھول موجود تھے۔ زندگی میں ہم نے جب بھی کسی کتاب میں "باغ" کا لفظ پڑھا، ہمیشہ ہمارے دماغ میں اسی پائیں باغ کا تصور آیا۔ اور یہ تصور آج تک قائم ہے۔ اللہ ہماری گستاخی کو معاف فرمائے مگر جنت کے باغوں کے تصور سے بھی وہی باغ ذہن میں آجاتا ہے (بلا مثال و تمثیل)۔ جب بھی اس باغ کا تصور ہمارے ذہن میں آتا ہے، اسکی خوشبوئیں آج تک ہمارے مشامِ جاں کو معطر کر دیتی ہیں۔ ایک تو اس وقت آلودگی برائے نام تھی، دھوپ میں تازگی تھی، شام میں سرشاری تھی اور راتیں فرحت بخش ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت کا تصور ہی ہمارے لیے کتنا جانفزا ہے ہمارے احباب شاید اندازہ بھی نہ کر سکیں۔۔ سنا ہے، اور سفید و سیاہ تصاویر میں دیکھا بھی ہے، وہ باغ ہمارے دنیا میں وارد ہونے سے پہلے اپنے جوبن پر تھا اور خواب و خیال کا باغ تھا۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب کراچی میں جناح بین الاقوامی ہوائی اڈہ اپنی تعمیرِ نو کے دور سے گزرا تھا اور ہمارے گھر سے میلوں کے فاصلے پر ہونے کے باوجود ہمارے گھر کی بالائی ٹنکی سے اس کی روشنیاں اور خدوخال صاف نظر آتے تھے۔ اب کی آلودگی اور بجلی کی قلت کے دور میں تو نہ ہوائی اڈے پر وہ روشنیاں رہیں اور نہ اتنے فاصلے کی چیز صاف نظر آتی ہے۔ ضعفِ نظر بھی غالباً ایک وجہ ہوسکتا ہے۔
(باقی اگلی قسط میں)