Thursday, December 15, 2011

بچپن: یادِ ماضی!!!۔







انسانی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے شہر کی سڑک۔ لہراتی بل کھاتی اپنی منزل کی طرف رواں دواں۔ مگر اس سڑک کی موجودہ شکل کے نیچے، کہیں نیچے اس کا ماضی دفن ہوتا ہے۔ مختلف وقتوں کولتار ڈال  ڈال کر اسے پختہ بنایا جاتا رہتا ہے۔ کہیں ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرنے کے لیے یا کبھی کسی تشریف لانے والے صدر یا وزیرِ اعظم کے استقبال کے لیے۔ تہہ در تہہ کولتار بچھ بچھ کر اس سڑک کی وہ شکل ہوجاتی ہے جو آپ ہم دیکھتے ہیں۔ اور ضروری نہیں وہ شکل اچھی بھی ہو!!

زندگی کی اس سڑک پر کتنے ہی مقام آتے ہیں۔۔ کتنی ہی تہیں چڑھ جاتی ہیں، کتنے ہی روپ ہم بدل لیتے ہیں اور ۔۔ کتنے راستے بدلتے ہیں۔۔  مگر آپ نے دیکھا ہوگا۔ جب سڑک کھودی جاتی ہے تو اس کی نچلی پرتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ لیکن ہر پرت واضح نہیں ہوتی۔ اپنا الگ تشخص وہی پرت رکھتی کہ جس کا مال مسالہ مضبوط اور جاندار ہو۔انہی جاندار پرتوں میں سے ایک انسان کا بچپن ہوتا ہے۔

آپ کتنے ہی خول چڑھا جائیں۔ کتنی ہی تہوں کے اوپر بالانشین ہوں۔ آپکا حال، آپکا چہرہ کتنا ہی جاذب و خوبصورت کیوں نہ ہو، زندگی کی  سب سے خوبصورت تہہ  میں کنویں کی سی گہرائی والا بچپن ہوتا ہے۔ ایسا کنواں کہ جس میں آپ نہ بھی پکاریں تو ماضی کی بازگشت یہ آپکو خود بخود سناتا رہے گا۔ آپ اسے جتنی بھی کوشش کر کے بھلانا چاہیں، یہ آپ کو رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ کبھی خلوت میں آپکو رلا دیگا، تو کبھی جلوت میں قہقہے لگوا دیگا۔۔۔ یا کبھی کسی سوچ میں گم آپ یکایک بچپن کی کوئی بات یاد آنے  پر بے اختیار مسکرا اٹھیں گے۔۔

پچھلے دنوں ہم کراچی کے ایک پسماندہ سے علاقے لانڈھی میں اپنے آبائی گھر گئے تھے۔ ہم نے اسی گھر میں آنکھ کھولی، وہی پلے بڑھے، وہیں کھیلے کودے اور وہیں شعور کی ابتدائی منازل طے کیں۔  ہماری سنہری یادیں اسی گھر اور اسی محلے سے وابستہ ہیں۔ بچپن کے دن ایسے لگتے ہیں جیسے وقت ٹھہر گیا ہو اور ہر شئے پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی ہو۔۔

وہ گھر ہمارے دادا کو حکومت کی طرف سے ملا تھا۔ ایک چھوٹا سا کوارٹر تھا جو قیامِ پاکستان کے کچھ سالوں بعد بسائی جانے والی لانڈھی کولونی کا حصہ تھا۔ کوارٹر ملنے کے بعد وقتاً فوقتاً ابو نے آپ پاس کی خالی زمین حکومت سے لیز کرالی تھی۔ یوں ایک کمرے کا کوارٹر کئی کمروں پر مشتمل بڑے سے گھر میں تبدیل ہوگیا تھا۔ اس گھر کی خاص بات یہ تھی کہ ہمارےابونے جب بھی "منّے مستری" سے اس گھر میں کام کروایا، ساتھ میں خود بھی لگ جاتے تھے۔ یوں اس گھر کی بنیادوں میں ہمارے والدِ محترم کا خون پسینہ محاورتاً ہی نہیں، حقیقتاً بھی شامل رہا۔ اس گھر کی ایک ایک دیوار اور ہر ہر چھت میں ابو کی محنت شامل تھی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ کچھ تو ان  کو ہمیشہ سے سخت محنت کی عادت اور شوق رہا، دوسرے انہوں نے میٹرک کے بعد کچھ عرصے تک سول ڈرافٹنگ کی تربیت حاصل کی تھی۔ کبھی وہ ہتھوڑی چھینی لے کر دیوار میں آرچ بنا رہے ہوتے تو کبھی سمینٹ کی بھاری بھرکم سلیبیں لکڑی کی سیڑھی سے چڑھتے ہوئے "منّے مستری" کو تھما رہے ہوتے۔ اورہمیں اس بات پر ہمیشہ فخر رہا کہ ہم اپنے ابو کے ہاتھ کے بنے ہوئے خوبصورت گھر میں رہے۔

اس گھر کے ساتھ ابو نے ایک چھوٹا سا مگر بہت ہی خوبصورت پائیں باغ بنا رکھا تھا جس میں دنیا جہاں کے پودے اور پھول موجود تھے۔ زندگی میں ہم نے جب بھی کسی کتاب میں "باغ" کا لفظ پڑھا، ہمیشہ ہمارے دماغ میں اسی پائیں باغ کا تصور آیا۔ اور یہ تصور آج تک قائم ہے۔ اللہ ہماری گستاخی کو معاف فرمائے مگر جنت کے باغوں کے تصور سے بھی وہی باغ ذہن میں آجاتا ہے (بلا مثال و تمثیل)۔  جب بھی اس باغ کا تصور ہمارے ذہن میں آتا ہے، اسکی خوشبوئیں آج تک ہمارے مشامِ جاں کو معطر کر دیتی ہیں۔ ایک تو اس وقت آلودگی برائے نام تھی، دھوپ میں تازگی تھی، شام میں سرشاری تھی اور راتیں فرحت بخش ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت کا تصور ہی ہمارے لیے کتنا جانفزا ہے ہمارے احباب شاید اندازہ بھی نہ کر سکیں۔۔ سنا ہے، اور سفید و سیاہ تصاویر میں دیکھا بھی ہے، وہ باغ ہمارے دنیا میں وارد ہونے سے پہلے اپنے جوبن پر تھا اور خواب و خیال کا باغ تھا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب کراچی میں جناح بین الاقوامی ہوائی اڈہ اپنی تعمیرِ نو کے دور سے گزرا تھا اور ہمارے گھر سے میلوں کے فاصلے پر ہونے کے باوجود ہمارے گھر کی بالائی ٹنکی سے اس کی روشنیاں اور خدوخال صاف نظر آتے تھے۔ اب کی آلودگی اور بجلی کی قلت کے دور میں تو نہ ہوائی اڈے پر وہ روشنیاں رہیں اور نہ اتنے فاصلے کی چیز صاف نظر آتی ہے۔ ضعفِ نظر  بھی غالباً ایک وجہ ہوسکتا ہے۔

(باقی اگلی قسط میں)




Friday, December 2, 2011

زاہد سو رہا ہے۔۔۔

کئی دن ہوگئے کچھ تحریر کیے ہوئے۔ 

اپنے اس جملے سے ہمیں دلاور فگار صاحب کا مشہورِ زمانہ مصرعہ یاد آگیا:

ع           حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہوگئے۔۔۔

واقعی اب تو ہمیں لگنے لگا ہے ہمارے حالاتِ حاضرہ مستقلہ مستمرہ ہوگئے ہیں۔ جمود ہے کہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ زنگ ہے کہ لگتا چلا جا رہا ہے۔ کچھ ایام قبل ہم نے کتب پر جو ہلہ بولا تھا، اب وہ جوش بھی کچھ ٹھنڈا دکھائی دیتا ہے۔ کافی ساری کتب ان پڑھی موجود ہیں اور جنہیں جلد ختم کرنا ہے کیوں کہ اس مہینے میں کراچی کا عالمی کتب میلہ آرہا ہے۔ اور ہم اس دفعہ وہاں سے ٹھیک ٹھاک خریداری کرنے کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں۔

کتب میلے سے یاد آیا، پچھلے سال کراچی بین الاقوامی کتب میلے میں ہمیں فرہنگِ آصفیہ، جس کی عرصے سے خواہش تھی، سستے داموں مل رہی تھی، مگر نہ جانے کیوں ہم نے وہ چھوڑ دی۔ اب ویلکم بک پورٹ پر قیمت معلوم کی تو دل مسوس کر رہ گیا۔۔

خیر دوستو!

بات ہورہی تھی حالاتِ حاضرہ کی۔ ہماری مراد سیاست کے پیچ و خم سے نہیں، بلکہ ہمارے اپنے حالاتِ حاضرہ سے ہے۔ انسان جو کچھ سوچتا ہے وہ ہوتا نہیں۔ اسلیے ہم اب یہ سوچتے ہیں کہ اب جو بھی کام کریں گے سوچے بغیر بس عمل کر ڈالیں گے۔ تاکہ زندگی کی گاڑی کچھ تو آگے بڑھے۔ 


Friday, November 18, 2011

غزل: نالہ کیا کیجے، فغاں کیا کیجے



بحرِ رمل میں میری ایک غزل۔ کافی اغلاط ہیں اس میں کوئی صاحب اصلاح فرمانا چاہیں تو ممنون ہونگا۔


 نالہ کیا کیجے، فغاں کیا کیجے،
دل نہیں لگتا یہاں، کیا کیجے،


دل تو اظہارِ تمنّا چاہے،
وہ نہیں سنتے، بیاں کیا کیجے،


شوخیٔ گل کا خدا حافظ ہو،
بلبلیں گریہ کناں،کیا کیجے،


جام سب خالی پڑے ہیں دل کے،
چل دیا پیرِ مغاں، کیا کیجے،


کب ملے ہیں حسینوں کے خطوط؟
چند تصویرِ بُتاں کیا کیجے،


چھوڑ کر بیٹھ گیا جو ہم کو،
اس کے بن جائیں کہاں، کیا کیجے،


شب سی تاریکی سرِ شام ہے کیوں,
دل مرا ڈوب گیا، کیا کیجے


محمد امین قریشی۔


ابھی مکمل اصلاح نہیں ہوپائی ہے اس غزل کی۔
مگر کافی حد تک اصلاح کے لیے ممنون ہوں:

اعجاز عبید انکل

Tuesday, November 8, 2011

پاکستان کی بندوقیں۔۔۔


میں نے کچھ عرصہ قبل سرفراز شاہ قتل کیس کے سلسلے میں ایک مضمون انگریزی میں فیس بک پر لکھا تھا۔ جوں کا توں یہاں پیش کر رہا ہوں۔ بشرطِ موڈ اسے اردو میں ترجمہ کرکے بھی پیش کردوں گا۔ امید ہے معلومات افزاء ہوگا۔


After 2 days of discussion and regrets about the 9th June incident of Clifton, I recognized a fact that besides the inhuman behaviour of security personnel out there, certain facts need to be analysed carefully and sensibly. First of all, individuals from law-enforcing forces should always act with their nerves held. This job is not like guarding a bank or vault, where you suspect every coming person to be the robber. Besides, there are other interesting facts that my friends and readers might not be knowing quite well.

I decided to write this note as a technical critique on counter-terrorism, becuase this has been my lifetime passion, and in fact I have some knowledge about the stuff.

The Ranger fired two shots at the youngster from a distance of approximately 6 feet, which he received on his forearm and on thigh. Reports claim he died of excessive bleeding. And fact is he was shot with a very high power battle rifle, that is used by militaries in warfare. The rifle was G3, which is considered to be a severly damaging rifle.

Currently, almost all of the armed forces of Pakistan, paramilitary forces and Police forces have got high caliber guns as their main weapon, that include G3 (Made in Pakistan) and AK47 (Made in China). G3 is a battle rifle that is one of the most powerful rifles using high power cartridge of 7.62x51 mm (the bullet u may say) and an infantry weapon used in battles and sometimes mounted. While AK47 is an assault rifle that uses and intermediate cartridge that is 7.62x39mm, but still this caliber is considered to be a killing caliber. Only one bullet from these two rifles can destroy a concrete block. These are two of the most powerful and highest caliber rifles carried by the forces around the world. And are meant to engage the targets on long ranges and to penetrate the prtecting kevlars of enemy. Bullets fired from these two rifles(G3 and AK47) have capability to go through the human body making a large wound, thus more bleeding.

High power rifles have a trade off in length and weight too, and are quite ineffective in close-quarter combats and urban areas. One point I am missing here is 7.62x51mm cartridge is widely used in sniper rifles too, which certainly means it is made to KILL!

Now, there has been a debate on it in the civilized societies to use such powerful killer weapons in the combats and in the city law-enforcment. Some 40 years ago US announced the usage of smaller caliber 5.56x45mm cartridge for the service rifles. As for the civilian law-enforcement, they wanted to capture the culprits and terrorists alive, thus they have moved towards thesmaller caliber and less powerful rifles and SMGs. The most popular of which are M16 and M4 carbines and MP5 SMGs that were developed for this very reason. These are not only accurate and precise but also avoid the possibility of collateral damage in case of friendly fire. Also this helped in capturing the terrorists wounded yet alive and resulting in better investigations.

M4 and M16 carbines use 5.56x45mm cartridge while MP5 uses a pistol caliber 9x19mm cartridge. Now a days, civil law-enforcing agencies and special counter terrorism forces are  essentially using such weapons. That not only enhance their capabilities to use weapons effectively in close-quarter combats but also these weapons mostly injure the culprits engaging them unless they are not shot at vital spots. Allied forces in Iraq and Afghanistan mostly use these light weapons.

Paramilitary forces (Pakistan Ranger) deployed in Karachi and Sindh Police both use G3 and AK47 as their main weapon. This means there is less probablity that they would capture the culprits and terrorists alive. And imagine of a person shot two bullets from a distance of less than 10 feet, while these rifles are capable of firing upto 500m (yeah this is a freaking half of a kilometer). Thats why you saw that much blood in a few seconds of him getting shot.

Incident like that was happened in Kharotabad too. Frontier Corps (FC) jawans used G3 and AK47 rifles too. But that was an exception because they fired hundreds of shots. Which would eventually kill even an elephant if they had used .22LR cartridge (the smallest of all, used for bird hunting and shooting competitions). So that is the case of sensiblity and nerve control. This shows the bewilderment amongst our soldiers and forces personnel and this has, of course, certain reasons.

I think its about time Pakistani authorities change their minds and priorities about the selection of rifle calibers. This is a country that has got the world's renowned Army and the larget illegal arms market. We have got a sense of war and arms. We must realize the fact that using such high caliber weapons in streets and urban areas has been disastrous for us. The terrorists and culprits we shoot get killed and the rest flee. And we are left with a trail of the snake which we keep beating about the bush (I have mixed up the urdu and english idioms eh).

In the picture shown here, The third from left is the .308 Win or 7.62x51mm (G3) , third from right is the 7.62x39mm (AK47) and the 2nd from right is 5.56x45mm (M4 & M16 Carbines) cartridge.

Muhammad Ameen Qureshi
Comparison of rifle cartridges. The third from left if the .308 Win or 7.62x51mm (G3) , third from right is the 7.62x39mm (AK47) and the 2nd from right is 5.56x45mm (M4 & M16 Carbines) cartridge.

Photo courtesy Wikipedia.

کوّا چلا ہنس کی چال۔۔۔

کوا چلا ہنس کی چال۔۔۔۔
(ہماری اردو کی حالتِ زار)
محمد امینؔ  قریشی
قوموں کی ثقافت، تہذیب اور ترقی میں انکی زبان کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ زبان صرف رابطے ہی کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ تخلیق و ایجاد اور معاشرے کی روحانی آسودگی (spiritual peace) میں بھی مدد کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آدمی کی سوچ اور خواب اسکی مادری زبان میں ہی ہوتے ہیں، چاہے وہ خواب نیند کے دوران دیکھے جائیں یا جاگتے ہوئے۔ اور یہ بھی کہ تخلیق اور ایجاد (Invention and innovation) ہماری سوچ اور خواب کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔ تو ہم بلاشبہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تخلیق کے لیے انسان کو اپنی زبان کا مکمل علم ہونا چاہیے۔

ہماری زبان اردو جس نے دہلی کے بازاروں، لکھنؤ کے مشاعروں اور حیدرآباد دکن کے دربار میں پرورش پائی اور جس کی بازگشت(Echo) لاہور اور کراچی کے ادبی حلقوں (Literary circles) میں اب تک گونجتی ہے، آج دنیا کے ایک بہت بڑے خطے، جنوبی ایشیاء میں کروڑوں لوگوں کی روزمرہ کی زبان ہے۔ اردو جو کہ "نستعلیق" رسم الخط (script) میں لکھی جاتی ہے، عربی، فارسی، سنسکرت اور ترکی زبانوں سے مل کر بنی ہے۔ مگر اردو آج ویسی زبان نہیں رہی جیسی آج سے کچھ سالوں پہلے ہوتی تھی۔ اردو زبان کی ترویج و ترقی (development & promotion) میں اردو شاعری اور ادب کا بہت گہرا ہاتھ رہا ہے۔ یہ صرف  پچھلی صدی کا ہی ذکر نہیں بلکہ دو ڈھائی سو سال پہلے جب اردو تشکیل پا رہی تھی اس وقت بھی شاعری نے ہی اسے سہارادیا تھا۔ یہی وجہ ہے  کہ جنوبی ایشیاء میں  آج تک جتنے بھی فلمی گیت اور غزلیں لکھی گئی ہیں ان میں سے اکثر اردو میں ہی رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نہ صرف اردو شاعری میں بلکہ عام بول چال میں بھی بھاری بھرکم الفاظ متروک (dead) ہوتے گئے۔ خیر الفاظ کا آنا جانا تو زبانوں میں لگا ہی رہتا ہے، مگر جو کچھ پچھلے چند سالوں میں اردو زبان کے ساتھ ہوا ہے اس نے ہماری تہذیب اور ثقافت پر بہت شدید ضربیں لگائی ہیں۔

جس طرح انگریزی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہم نے اپنی ثقافت کو گہنا  دیا ہے(distort) وہ سب کے سامنے ہے۔ تخلیق کا جو عنصر اردو کے شروع کے دور میں اور حتیٰ کہ پچھلی صدی کے شعر و ادب (literature) میں کھل کر نظر آیا وہ اب ہماری قوم سے مفقود(disappear) ہوتا جا رہا ہے۔ہماری قوم ایجادات کے معاملے میں بھی دوسری قوموں پر انحصار کرتی ہے کیوں کہ ہم نے اپنی اس تخلیقی صلاحیت  (creativity)پر بھروسہ کرنا نہیں سیکھا جو انسان کی سوچ میں اس کی اپنی مادری زبان کی صورت میں بھری ہوتی ہے۔ ہماری قوم نے خود کو آدھا تیتر جیسا بھی رنگ لیا اور آدھا بٹیر جیسا بھی اسی لیے ہم ویسے خالص نہیں ہیں جیسا انسان اپنی روایات اور ثقافت سے جڑ کر رہتا ہے۔ یہ بات کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انگریزی سیکھنا یا بولنا کوئی غلط بات ہے، بلکہ دوسری زبان  کو اپنی زبان میں اس حد تک شامل کر لینا کہ اپنی زبان کا حال حلیہ ہی بگڑ کر رہ جائے، یہ کسی بھی قوم کے مردہ ہونے کی نشانی ہے۔ کسی اور  ثقافت کو وقت کے تقاضے (need of the hour) کے نام پر اپنی ثقافت پر حاوی کرلینا ترقی یافتہ قوموں کی نشانی نہیں ہے۔ ہم نے شروع میں لکھا کہ تخلیق اور ایجاد کے لیے  اپنی زبان پر مکمل عبور اور معاشرے میں اس حوالے سے یکسانیت (harmony) بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔  جتنی بھی قومیں اب تک ترقی یافتہ ہیں وہ سب اپنی زبان میں ہی کمالِ فن (excellence) حاصل کر کے ہی دنیا میں سر اٹھا کر جینے کے لائق ہوئی ہیں۔

ہم یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انٹرنیٹ اور "جادوئی ڈبیا" یعنی موبائل فون کے اس انگریزی دور میں کتنے ہی لوگ ایسے ہونگے جنہوں نے بہت عرصے سے اپنا اور اپنے دوستوں کا نام اردو میں لکھا نہیں دیکھا ہوگا، حالانکہ کچھ موبائل فون میں اردو میں لکھنے کا بھی اختیار ہوتا ہے۔ مگر بہت سے لوگوں کو تو اردو درست پڑھنی بھی نہیں آتی۔  اور جہاں تک جدید ایجادات کا تعلق ہے تو ہمیں ان کے لیےاردو میں بھی اسی زبان کے الفاظ شامل کرنے پڑتے ہیں کہ جس سے اس ایجاد کا تعلق ہوتا ہے۔ اور اردو زبان کا حسن یہی ہے کہ وہ  دوسری زبانوں کو اپنے اندر جذب بھی کرلیتی ہے۔ مخصوص اصطلاحات(terms) کی حد تک تو یہ بات قابلِ قبول ہے لیکن جس چیز کے لیے اردو میں پہلے ہی سے کوئی مناسب لفظ موجود ہو اسے بھی انگریز کا کلمہ پڑھا دینا اردو کے لیے زہرِ قاتل ہے۔اسی طرح گفتگو کے دوران  ایک جملہ انگریزی میں بولنا پھر آدھا اردومیں پھر اگلا جملہ انگریزی میں بولنا ، یہ ملغوبہ (mixture) ہماری نسل کو اردو زبان سے دور کر رہا ہے۔نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہم نے دنیا میں اپنی شناخت کھو رہے ہیں کیوں کہ ہم نے اپنی زبان کی ثقافت اور روایات کو پروان نہیں چڑھایا، بلکہ دنیا کے ساتھ چلنے کی دھن میں جدیدیت کے دیوتا کی بھنیٹ چڑھا دیا۔

سیانے کہتے ہیں کہ اگر آپ نے آج اپنے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچا تو آپکی قسمت کے فیصلے دوسرے لوگ کر رہے ہونگے۔ ایک قوم کے طور پر یہ بات ہم پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ تہذیب و ثقافت سے لے کر علم اور تاریخ تک ہم نے کسی بھی چیز کے بارے میں خود فیصلہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اپنی ترجیحات (priorities) کا تعین نہیں کر سکے۔ ہم نے اپنی ثقافت کو بوجھ اور جدید دور سے متصادم (conflicting) سمجھ کر اپنے معاشرے سے نکال باہر کیا، اسی وجہ سے آج ہم دوسروں کی ثقافت پر پل رہے ہیں۔ ہم نے اپنی تاریخ سے کوئی واسطہ نہیں رکھا، کہیں ایسا نہ ہوکہ  جو ہمارا آج ہے اسکی لکھی جانے والی تاریخ کسی اور کی مرہونِ منت ہو۔ نابینا مگر دانا شاعر اقبالؔ عظیم  نے خوب لکھا ہے:

اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤگے،
خواب ہوجاؤگے افسانوں میں ڈھل جاؤگے،

اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا،
سرخ شعلوں سے جو کھیلوگے تو جل جاؤگے،

اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو،
سنگِ مرمر پہ چلوگے تو پھسل جاؤگے۔۔

منتشر خیالات




(۲۷ اکتوبر ۲۰۱۱ کو رات ڈیڑھ بجے نیند نہ آنے کے سبب کچھ لکھنے کی ٹھانی۔۔اور منتشر سے الفاظ اور خیالات ہیں، امید ہےاحباب اغلاط سے صرفِ نظر کریں گے)


آج طبیعت ٹھیک نہیں تھی سارا دن۔ پچھلے دو دنوں سے انگلی کا کنارا اندرونی طور پر پک رہا ہے اور شدید دھوپ میں بائک کا سفر۔ آج صدرِ مملکت یا وزیرِ اعظم کے قافلے کی وجہ سے شاہراہِ فیصل کچھ دیر کو بند تھی اور اتفاق سے ہمیں بھی وہیں سے گزرنا تھا سڑی بسی دوپہر میں۔


اس تکلیف اور دھوپ کی شدت نے گھر آنے کے بعد بھی بے چین کیے رکھا۔ آدھی رات کے وقت 3 گھنٹے سے سونے کی کوشش کرتے ہوئے خیال آیا کہ منتشر خیالات کو جمع ہی کرلیا جائے۔

آگ کے شعلے برساتا سورج سر پر، اور آتش فشاں کے لاوے جیسا پگھلتا ہوا کولتار پیروں تلے۔ اس جگہ ٹریفک کھلنے کے انتظار میں کھڑے کھڑے اگر غلطی سے بائک کی ٹنکی پر یا ہیلمٹ پر ہاتھ لگ جاتا تو افسوس ہوتا کہ ہاتھوں کو ایک جگہ قرار کیوں نہیں۔۔


مزید یہ کہ گاڑیوں کے انجنوں کی گرمی منظر کو بھی پگھلا پگھلا دیتی ہے۔ جیسے صحرا میں دور کا منظر ہلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔۔


اس انتظار میں ذہن ناشائستگی کی حدوں کو پھلانگ چکا تھا۔ ساتھ کھڑا بائک سوار تو وہ کچھ فرما رہا تھا جو کہ صرف سنا ہی جا سکتا ہے۔ پیچھے دو ایمبولینسز کے بجتے ہوئے سائرن ،گویا فریاد کر رہے تھے، ہمیں اکسا رہے تھے کہ گذرنے والے قافلے سے پہلے ان چیلے چانٹوں اور شاہ کے وفاداروں کو سول نافرمانی تحریک کا مزا چکھا دیں۔ وہ شاہ کے وفادار جو کہ شاہراہِ فیصل کے ہر داخلی و خارجی رستے پر بند باندھے کھڑے تھے۔


شہرِ کراچی کا ٹریفک چل رہا ہو تو وبال اور رک جائے تو عذاب۔ جہاں بے ہنگم ہوجائے تو جھنجھلاہٹ خیز اور باسلیقہ چل رہا ہو تو انسانوں کو برداشت نہیں۔ 


چاروں سمتوں میں تا حدِ نگاہ اور تاحدِّ امکاں پھیلے ہوئے شہر میں "ویسٹ وہارف" سے "شمالی کراچی" تک کا سفر ایسا ہے جیسے کسی عاصی کا پلِ صراط کا سفر (الامان ۔۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے)۔۔ یہ سطریں ہم اس لیے نہیں لکھ رہے کہ آج پہلی مرتبہ ان دو مقامات کے درمیان سڑکیں ناپیں۔ ہم کالج کے زمانے میں جناح برج (المعروف بہ نیٹی جیٹی) گھومنے جاتے تھے؛ سندھ مدرسۃ الاسلام سے پیدل!! اور واپسی گھر تک بس میں ہوتی تھی۔ بہرحال یہ سطریں اس بڑھتے ہوئے دباؤ کی بناء پر ہیں جو غبارے کو دھماکے کی آخری حد پر لا کھڑا کرتا ہے۔


کراچی شہر پاکستان کی آبادی کا کم از کم 10 فی صد ہے۔ اور روز بروز یہ عدد اضافہ پذیر ہے۔ گاڑیاں گو کہ لوس اینجلس کی طرح 1:1 کے تناسب سے نہیں ہیں مگر سڑکیں اور ٹریفک کا شعور اس تناسب سے نہیں ہے جو کہ اس حجم اور اس اہمیت کے شہر کا خاصہ ہونا چاہیے۔


ان سطروں کا مقصد گو کہ ذاتی اور داخلی کیفیات کا احاطہ کرنا تھا مگر ہمیں اس مقام پر ایسا لگ رہا ہے کہ ہمیں ٹریفک سے سیاست، معاشرت اور بین الاقوامی تعلقات پر آنے میں دیر نہیں لگے گی، تو واپس آتے ہیں اصل بات کی طرف۔


انگلی کے جس درد نے اس وقت ہمیں پریشان کیے رکھا ہے وہ ہے تو ہلکا سا ہی مگر کافی دنوں کے بعد کوئی تکلیف ہوئی ہے۔ تو اس نے ذات کے نہاں خانوں میں چھپے درد اور اسکے ما بعد کو جگا دیا ہے۔ 


آپ غلط اندازے نہ لگائیے، یہ کلّی طور پر ذاتی اور انفرادی معاملہ ہے، وہ روگ نہیں جو عموماً تارے بھی گننے پر مجبور کردیتا ہے۔ ہمارا درد ہماری ذاتی خواہشات، زندگی کے مقاصد اور بہت سے ادھورے سفر ہیں۔ 


انسان جب بہت زیادہ سوچنے لگے تو اس کے ہاتھ پیر زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے سوچ اور عمل میں توازن ہونا چاہیے۔ جب نظر سفر کے بجائے فقط منزل پر مرکوز رہے اور زہد کے بجائے خیالِ زہد ہی پیشِ نظر رہے تو آدمی طریق در طریق، سفر در سفر بھول بھلیوں میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔ راہِ طریقت میں بھی یہی معاملہ ہے۔ لوگ شیخِ طریقت کو ہی "طریق" جان لیتے ہیں حالانکہ وہ تو ایسا سنگِ راہ ہے جو راستے بھر ساتھ ساتھ چلتا ہے۔


سوچتے ہیں زندگی سے کیا کیا کچھ لے کر اسے کیا کیا لوٹایا-

کہیں سے خواب لیے، کہیں سے ارادے لیے۔ کہیں سے ولولہ اور کہیں سے فقط جھڑکیاں۔


ابھی ہم چھوٹے ہی تھے کہ جہازوں کی آواز اور فضاؤں پر حکمرانی بھانے لگی، تو سوچا پائلٹ ہی بننا ہے۔جہازوں کو "ٹاٹا" کیا کرتے تھے۔پھر سوچتے تھے جب ہم مانندِ عقاب فضاؤں کا سینہ چیرتے ہوئے جب شہروں اور دیہاتوں پر سے گذریں گے تو کئی "امینوں" کے ہاتھ ہمارے لیے بھی فضا میں بلند ہوجائیں گے۔


بچپن سے لڑکپن اور پھر نوجوانی تک آتے آتے ادراک ہوا کہ "کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں۔۔۔کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق ہے"۔۔۔۔ اپنے شوق کو مار کر بھلا کون زندہ رہ سکتا ہے۔ اور ہم نے ایک شوق ہی کا قتل نہیں کیا بلکہ ہماری زندگی یکے بعد دیگرےشوق پالنے اور پھر اسکا قتل کرنے میں ہی گذری ہے۔۔


نوجوانی آتے آتے کمانڈو بننے کی دھن سمائی مگر جسامت اور نظر دونوں کمزور (اور کسی حد تک دل بھی)۔۔۔


کرکٹ سے بچپن ہی سے جنون کی حد تک محبت۔ ایسا جنون جو حقیقی معنیٰ میں رگوں میں دوڑتے خون کی مانند ہو۔ جس کی روانی جسم و جاں کو تروتازہ کردے اور مشامِ جاں کو معطر۔ مگر روزانہ 30 کلومیٹر کا سفر کرکے جامعہ جانا اور پھر واپس آنا اس قابل نہیں چھوڑتا تھا کہ اس جنون سے اپنی خرد کو جلا بخش سکتے۔ اس کے باوجود 2 سال قبل نیٹ پریکٹس کے لیے جاتے تھے اور وہ چند دن ہماری زندگی میں ہمیشہ لکھے رہیں گے، مدھم پڑجانے والے سنہری حروف کی طرح۔ے).


زمانۂ طالبعلمی کے شدید دباؤ کے باوجود ہم نے بھی Randy Pausch کی طرح اپنے خوابوں کی تعبیروں کی طرف دھیان دیا۔ اور اب اس دباؤ سے نکل کر ہمیں یوں لگتا ہے کہ فی الحال اعضاء اور اعصاب منتشر ہیں مگر دھن موجود اور سالم۔

(Randy Pausch کے بارے میں جاننے کے لیے یوٹیوب پر Really Achieving Your Childhood Dreams لکھ کر تلاش کیجیے).



زندگی ایک مسلسل خواب کی طرح گذاری۔ اب وقت ہے اسکی تعبیر میں روح پھونکنے کا۔ خوابوں کے یک رنگی کینوس میں قوسِ قزح کے رنگ بھرنے کا۔ 


ہم جب بہت تکلیف میں ہوتے ہیں تو تکلیف کو اور بھی زیادہ محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ہماری سوچ کا زاویہ وسیع ہوجاتا ہے اور ہم وہ کچھ لکھنے اور کہنے کے قابل ہوجاتے ہیں جو عام حالات میں ذہن کے اندر گرد کی دبیز تہہ تلے پڑا رہتا ہے۔ آج انگلی کی تکلیف اور سفر کی تھکان نے ہمارے ذہنی گھوڑوں کو دوڑا کر کچھ لکھوا ہی ڈالا۔۔