بحرِ رمل میں میری ایک غزل۔ کافی اغلاط ہیں اس میں کوئی صاحب اصلاح فرمانا چاہیں تو ممنون ہونگا۔
نالہ کیا کیجے، فغاں کیا کیجے،
دل نہیں لگتا یہاں، کیا کیجے،
دل تو اظہارِ تمنّا چاہے،
وہ نہیں سنتے، بیاں کیا کیجے،
شوخیٔ گل کا خدا حافظ ہو،
بلبلیں گریہ کناں،کیا کیجے،
جام سب خالی پڑے ہیں دل کے،
چل دیا پیرِ مغاں، کیا کیجے،
کب ملے ہیں حسینوں کے خطوط؟
چند تصویرِ بُتاں کیا کیجے،
چھوڑ کر بیٹھ گیا جو ہم کو،
اس کے بن جائیں کہاں، کیا کیجے،
شب سی تاریکی سرِ شام ہے کیوں,
دل مرا ڈوب گیا، کیا کیجے
محمد امین قریشی۔
ابھی مکمل اصلاح نہیں ہوپائی ہے اس غزل کی۔
مگر کافی حد تک اصلاح کے لیے ممنون ہوں:
محمد وارث بھائی
اعجاز عبید انکل
اور سعود ابنِ سعید کا۔
بہت ہی اعلیٰ
ReplyDeleteبہت ہی عمدہ
جہاں ت ک قواعد کا تعلق ہے تو ہم بے وزنے افراد الفاظ کو وزن کہاں سے پہنائیں لہذا اپنی اس خامی کا علاج اردو شاعری وزن سے آزادنامی تحریک کی حمایت میں ڈھونڈا ہے
خوب غزل ہے امین کیا کہنے۔ ایک مصرع ابھی بھی توجہ طلب ہے
ReplyDeleteکب ملے ہیں حسینوں کے خطوط
علی بھائی: بہت شکریہ۔ :) :)
ReplyDeleteوارث بھائی: بہت شکریہ :) ۔۔ آپ کوئی تجویز دیں نا۔ میں نے یہ اضافہ اصل میں اصلاح کے بعد کیا تھا۔