Showing posts with label میری پسند. Show all posts
Showing posts with label میری پسند. Show all posts

Wednesday, May 25, 2016

اے دلِ بے قرار جھوم : خمار بارہ بنکوی


کندن لال سہگل یا کے۔ ایل۔ سہگل جس کو انگریزی میں Saigal لکھا جاتا ہے، ہندی فلم انڈسٹری کے اولین گائیکوں میں سے تھا اور جتنا مجھے اس کے بارے میں انٹرنیٹ کے ذریعے علم ہوا ہے، اس سے یہی پتا لگتا ہے کہ ہندی فلم انڈسٹری کا پہلا سپراسٹار سہگل ہی تھا۔ فلموں میں اداکاری بھی کرتا اور اپنے اوپر فلمائے گانے خود گاتا تھا۔ 

غالب کی غزلیں بھی کافی گائی ہیں اس نے اور کچھ جدید قسم کے گیت بھی۔ گو میں نے اس کے چند ہی گیت سنے ہیں لیکن سب ہی مجھے پسند ہیں۔ بہت اچھا گلوگار تھا۔ 1946 میں بنائی گئی فلم "شاہجہاں" کے سارے ہی گیت مشہور ہیں، ان میں سے ایک "اے دلِ بے قرار جھوم" مجھے بے حد پسند ہے۔ نجانے کیوں اس گیت میں کچھ رجائیت، کچھ اپنائیت اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ میں نے اس گیت کے بول یا lyrics انٹرنیٹ پر تلاش کیے تو معلوم ہوا کہ اس لازوال گیت کو منصۂ شہود پر لانے کا سہرا میرے محبوب شاعر حضرت خمار بارہ بنکوی کے سر ہے۔

خمار بارہ بنکوی نے فلمی شاعری کافی کی ہے، شاید اسی وجہ سے ان کی اکثر شاعری کچھ لوگوں کے بقول کلاسیکی معنیٰ آفرینی سے خالی ہے۔ کچھ بھی ہو، خمار کا قد بہت بڑا ہے، اور بہت اچھا لکھتے تھے، اس بات سے روگردانی ممکن نہیں۔

اے دلِ بے قرار جھوم

اے دلِ بے قرار جھوم،
ابرِ بہار آگیا،
 دورِ خزاں چلا گیا،
عشق مراد پا گیا،
حسن کی مچ رہی ہے دھوم،
اے دلِ بے قرار جھوم۔

چٹکی ہوئی ہے چاندی،
مستی میں ہے کلی کلی،
جھوم رہی ہے زندگی، 
تو بھی ہزار بار جھوم،
اے دلِ بے قرار جھوم۔

تارے ہیں ماہتاب ہے،
حسن ہے اور شباب ہے،
زندگی کامیاب ہے،
آرزؤوں کا ہے ہجوم،
اے دلِ بے قرار جھوم۔

تیرا نشہ، تیرا خمار،
اب ہے بہار ہی بہار،
پی کے خوشی میں بار بار،
تو بھی ہزار بار جھوم،
اے دلِ بے قرار جھوم۔

خمار بارہ بنکوی۔


Friday, June 13, 2014

یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی: حضرتِ جون ایلیاء

حضرتِ جون ایلیاء دبئی میں غضب ڈھاتے ہوئے۔۔۔۔

 "یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی"

 "ہاں دوا دو مگر یہ بتلا دو۔۔۔۔ مجھے آرام تو نہیں ہوگا"


https://www.youtube.com/watch?v=L7pGVrcg7rc
http://www.dailymotion.com/video/x2rvcz9_jon-elia-jashn-e-peerzada-qasim-part-1_fun

Saturday, May 10, 2014

نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے: خمار بارہ بنکوی



نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے 

سکوں ہی سکوں ہے، خوشی ہی خوشی ہے 
ترا غم سلامت، مجھے کیا کمی ہے 

وہ موجود ہیں اور ان کی کمی ہے 
محبت بھی تنہائیٔ دائمی ہے 


کھٹک گدگدی کا مزا دے رہی ہے 
جسے عشق کہتے ہیں شاید یہی ہے 

چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں 
نیا ہے زمانہ، نئی روشنی ہے 

جفاؤں پہ گھُٹ گھُٹ کے چُپ رہنے والو 
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے 

مرے راہبر! مجھ کو گمراہ کر دے 
سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے 

خمارِ بلا نوش! تُو اور توبہ!
تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے​ 

خمار بارہ بنکوی

Friday, February 28, 2014

جو غمِ حبیب سے دور تھے وہ خود اپنی آگ میں جل گئے


جو غمِ حبیب سے دور تھے وہ خود اپنی آگ میں جل گئے
جو غمِ حبیب کو پاگئے وہ غموں سے ہنس کے نکل گئے

جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے
وہ نظر نظر سے گلے ملی تو بجھے چراغ بھی جل گئے

یہ شکستہ دید کی کروٹیں بھی بڑی حسین و جمیل تھیں
میں نظر جھکا کے تڑپ گیا وہ نظر بچا کے نکل گئے

نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی نہ بہار میں ہے کوئی روشنی
یہ نظر نظر کے چراغ ہیں کہیں بجھ گئے کہیں جل گئے

جو سنبھل سنبھل کے بہک گئے وہ فریب خوردہ راہ تھے
وہ مقامِ عشق کو پاگئے جو بہک بہک کے سنبھل گئے

شاعر لکھنوی

Tuesday, March 27, 2012

آپ بہت عجیب ہیں: ڈوکٹر پیرزادہ قاسم

غم سے بہل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

سایۂ وصل کب سے ہے آپ کا منتظر مگر
ہجر میں جل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا ہے آپ نے
ہاتھ بھی مَل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

وقت نے، آرزو کی لَو، دیر ہوئی، بجھا بھی دی
اب بھی پگھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

زحمتِ ضربتِ دِگر دوست کو دیجئے نہیں
گر کے سنبھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

دائرہ وار ہی تو ہیں عشق کے راستے تمام
راہ بدل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

دشت کی ساری رونقیں، خیر سے گھر میں ہیں، تو کیوں
گھر سے نکل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

اپنی تلاش کا سفر ختم بھی کیجیے کبھی
خواب میں چل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

ڈوکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی

Thursday, March 8, 2012

حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی : جون ایلیا


حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی

ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی ، بات نہیں سنی گئی

بعد بھی تیرے جانِ جاں ، دل میں رہا عجب سماں
یاد رہی تیری یہاں، پھر تیری یاد بھی گئی

اس کی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے، عمر گزار دی گئی

اس کے وصال کے لئے، اپنے کمال کے لئے
حالتِ دل، کہ تھی خراب ،اور خراب کی گئی

تیرا فراق جانِ جاں! عیش تھا کیا میرے لئے
یعنی تیرے فراق میں خوب شراب پی گئی

اس کی گلی سے اٹھ کے میں آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی گئی


جون ایلیاء

بشکریہ: پاکستانیکا

Saturday, February 18, 2012

ابھی تو میں جوان ہوں: حفیظ جالندھری


حفیظ جالندھری صاحب کی مقبولِ عام نظم "ابھی تو میں جوان ہوں۔۔" جو کہ میرے اس بلوگ کی تھیم بھی ہے :)۔ کافی دنوں سے پوسٹ کرنے کا ارادہ تھا، جسے آج عملی جامہ پہنا ہی دیا۔۔۔۔

بشکریہ صریرِ خامۂ وارث از محمد وارث بھائی۔


ابھی تو میں جوان ہوں۔۔۔

ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پُر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا
اٹھا سبُو، سبُو اٹھا
سبُو اٹھا، پیالہ بھر
پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سمت کر نظر
سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں
افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجومِ مے کشاں
ہے سوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ہے بد گماں
سمجھ نہ مجھ کو ناتواں

خیالِ زہد ابھی کہاں
ابھی تو میں جوان ہوں

عبادتوں کا ذکر ہے
نجات کی بھی فکر ہے
جنون ہے ثواب کا
خیال ہے عذاب کا
مگر سنو تو شیخ جی
عجیب شے ہیں آپ بھی
بھلا شباب و عاشقی
الگ ہوئے بھی ہیں کبھی
حسین جلوہ ریز ہوں
ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطر بیز ہوں
تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
نگار ہائے فتنہ گر
کوئی اِدھر کوئی اُدھر
ابھارتے ہوں عیش پر
تو کیا کرے کوئی بشر
چلو جی قصّہ مختصر
تمھارا نقطۂ نظر

درست ہے تو ہو مگر
ابھی تو میں جوان ہوں

نہ غم کشود و بست کا
بلند کا نہ پست کا
نہ بود کا نہ ہست کا
نہ وعدۂ الست کا
امید اور یاس گم
حواس گم، قیاس گم
نظر کے آس پاس گم
ہمہ بجز گلاس گم
نہ مے میں کچھ کمی رہے
قدح سے ہمدمی رہے
نشست یہ جمی رہے
یہی ہما ہمی رہے
وہ راگ چھیڑ مطربا
طرَب فزا، الَم رُبا
اثر صدائے ساز کا
جگر میں آگ دے لگا
ہر ایک لب پہ ہو صدا
نہ ہاتھ روک ساقیا

پلائے جا پلائے جا
ابھی تو میں جوان ہوں

یہ گشت کوہسار کی
یہ سیر جوئبار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے
یہ گل رخوں کے قہقہے
کسی سے میل ہو گیا
تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا
یہ ہنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں
یہ رس بھری جوانیاں
اِدھر سے مہربانیاں
اُدھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمیں
نظارہ ہائے دل نشیں
انھیں حیات آفریں
بھلا میں چھوڑ دوں یہیں
ہے موت اس قدر قریں
مجھے نہ آئے گا یقیں

نہیں نہیں ابھی نہیں
ابھی تو میں جوان ہوں
——–