Showing posts with label متفرقات. Show all posts
Showing posts with label متفرقات. Show all posts

Sunday, December 20, 2015

میرا مطالعہ اور غیر ملکی ادب

بچپن میں 'نونہال'، 'تعلیم و تربیت'، 'ساتھی میگزین'، ٹوٹ بٹوٹ'، جنگ اخبار کا 'بچوں کا صفحہ'، اور کتنے ہی بچوں کے رسائل و جرائد باقاعدگی سے پڑھے۔ حکیم محمد سعید رحمہ اللہ کا سفرنامۂ جاپان 'یہ جاپان ہے' بہت ذوق و شوق اور استعجاب کے ساتھ پڑھا، کہ اس میں جاپان کی ترقی کی اصلی باتصویر کہانیاں موجود ہیں۔ 7،8 سال کی عمر میں ہی پھر کتابوں سے محبت ہوگئی۔ 

9 سال کی عمر میں ایک دفعہ شدید بخار نے آ گھیرا، مجھے یاد ہے نیم بیہوشی کی کیفیت میں رہا اور کچھ کچھ ہذیانی کیفیت بھی تھی۔ جب طبیعت تھوڑی بہتر ہوئی مگر ہنوز بخار کے باعث لاغر ہوچکا تھا اور کمزوری کے باعث بستر سے ہی لگا ہوا تھا تو چاچا نے گھر سے دو گلیوں کے فاصلے پر واقع پرانی اور مشہور لائبریری، جو کہ کرائے پر کتب دیتی تھی، سے  ایک ناول 'حورِ عرب' لا دیا۔ کس نے لکھا تھا یہ یاد نہیں البتہ تھوڑا پڑھنے کے بعد واپس کروا دیا کیوں کہ رومانوی ناول تھا، نہ میری سمجھ میں آرہا تھا اور نہ ہی میں نے کبھی ایسی کتب پڑھی تھیں، تو مزاج کے بھی برخلاف تھا۔ "یہ تو بڑوں کی کتاب ہے" کہہ کر واپس کردیا۔ پھر مجھے وہاں سے اشتیاق احمد کے ناولوں کی فہرست لا کر دی گئی اور یوں وہ دیوانگی کا دور شروع ہوا کہ جو 70،80،90 کی دہائیوں میں اردو کتب پڑھنے والے ہر بچے، بڑے پر گزرا ہے۔ پھر تو روز ہی اشتیاق احمد کے ناول لے لے کر پڑھنے لگا۔ اور ایک دن میں تین، تین ناول چند ہی گھنٹوں میں ختم کر کے پھر لابریری پر جا کھڑا ہوتا اور لائبریری والے "اقبال بھائی" حیرت سے مجھے تکنے لگتے۔۔۔ مگر کتابوں کا شوق بڑھتا ہی گیا۔ کبھی ایسے ادوار بھی آئے کہ کتب پڑھنا بوجوہ کم ہوا مگر ایسا نہیں کہ کتب سے بیزاری ہوگئی ہو۔

چھوٹی ہی عمر میں کرنل محمد خان، مشتاق احمد یوسفی، اقبال کا کچھ کلام، اور جو جو کتب ہاتھ لگتی گئیں پڑھتا گیا۔ یہ سب کتب اپنے ناناجان کے گھر جا کر پڑھتا تھا۔ ان کے پاس اچھی ذاتی لائبریری تھی، سیکڑوں ہزاروں کتب تھیں جو میں حسبِ استعداد پڑھتا رہتا۔ پھر ہم نئے محلے میں منتقل ہوگئے اورمظہر کلیم کے ناولوں کو بے حساب پڑھا۔ مگر آہستہ آہستہ احساس ہوا کہ یہ شخص فارمولہ کہانیاں لکھتا ہے اور عمران کو مافوق الفطرت مخلوق بنا کر رکھا دیا ہے۔ 

پرانے محلے میں "اقبال لائبریری" سے جب اشتیاق احمد کی کہانیاں لے کر پڑھا کرتا تھا تو ایک دفعہ شاید ابو کے کہنے پر 'ابنِ صفی' کا ایک آدھ ناول لے آیا تھا۔ عمر میری 9،10 سال تھی اور عادت اشتیاق احمد کے سیدھے سادے، بچوں والے مزاح سے بھرپور ناول پڑھنے کی تھی۔ ابنِ صفی کے ناول میری سمجھ سے بالاتر تھے تو پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

نئے محلے میں "حیات لائبریری" ابنِ صفی کے ناول لانا شروع کئے۔ میں اور میرا بھائی مبین، دونوں ہی تھوڑے بڑے ہوگئے تھے اور مشکل ناول سمجھ آنے لگے تھے تو مظہر کلیم کو خیر باد کہہ کر ابنِ صفی کا دیا ہوا جنون سینے سے لگا لیا۔ ابنِ صفی کے ناولوں نے اتنا دیوانہ بنا دیا تھا کہ وہی روز روز تین چار ناول پڑھنا، ایک ساتھ کئی کئی کتب لے آنا۔

مگر نہ جانے کیا بات رہی کہ کبھی انگریزی ادب مزاج کا حصہ نہ بن سکا۔ اسکول کالج میں انگریزی اسباق بھی اتنے سمجھ نہیں آتے تھے نہ پڑھنے کا شوق رہا۔ پھر چند سال قبل دوستوں کے کہنے پر ڈین براؤن کا The Da Vinci Code پڑھا۔ یہ میرا پہلا انگریزی ناول تھا جو کہ مکمل پڑھا۔ پڑھنے میں کافی وقت لگا مگر میں نے پڑھنے کے لیے جامعہ کی چھٹیوں کے دنوں کا انتخاب کیا تھا۔ صبح شام لگا کر 3،4 دن میں ناول ختم ہو ہی گیا۔ اس کے بعد جامعہ کی لائبریری  سے لے کر Matthew Reilly کا لکھا ہوا Scarecrow پڑھا۔ دونوں ہی ناول بہت پسند آئے مگر اس کے باوجود انگریزی ادب سے مزاج نہ مل سکے۔ 

PAF-KIET میں B.E کے دوران انگریزی کے چار لازمی کورسز یا مضامین پڑھنے پڑے۔ محترم اجمل خان محسود صاحب انگریزی کے ایک زبردست اور دوست قسم کے استاد ہیں۔ انہوں نے کافی ناول پڑھنے کو بتائے کہ جن سے ذہن بھی کھلے اور انگریزی بھی اچھی ہو۔ ہمارا ایک کورس فلسفے کا بھی تھا؛ انگریزی زبان میں۔ استاد فہد علی رضا بہت وسیع المطالعہ شخصیت ہیں اور ان سے گفتگو کے دوران سوچ کے نئے زاویے ملتے ہیں۔ انہوں نے بھی انگریزی اور غیر ملکی ادب کے بہترین ناولوں کی فہرست بتائی جو کہ میں انگریزی ادب کا مزاج ہونے کی وجہ سے پڑھ نہیں سکا۔ جن کتب کے نام مجھے یاد رہ گئے ہیں وہ یہ ہیں: War and Peace - Tolstoy, Moby Dick - Herman Mellvile, Les Miserables - Victor Hugo, 1984 and Animal Farm - Geroge Orwel.

پھر آہستہ آہستہ میں نے فیصلہ کیا کہ انگریزی اور غیر ملکی ادب کو اپنے مزاج کا حصہ بناؤں گا۔ جہاں کوئی کتاب سستی مل جاتی فوراً خرید لیتا، چاہے پڑھنے کا وقت ملے یا نہ ملے۔ بس فرصت کے دنوں میں پڑھنے کا سامان جمع کرنے لگا۔ نہ صرف انگریزی بلکہ اردو کتب بھی بے حساب خرید لیتا۔ 

کراچی کے ایکسپو سینٹر میں لگنے والے بین الاقوامی کتب میلے میں 2011 سے تقریباً ہر سال جاتا ہوں اور ہر دفعہ ہزاروں روپے کی کتب خریدتا ہوں خاص کر کلاسیکی انگریزی ادب۔

2015 وہ سال ہے جب میں نے انگریزی ادب کو سنجیدگی اور باقاعدگی سے پڑھنے کی کوشش کی۔ اس سال میں نے درج ذیل کتب مکمل پڑھی ہیں۔
A Study in Scarlet - Arthur Conan  Doyle
The Alchemist - Paulo Coelho
The Adventures of Hucleberry Finn - Mark Twain

اس کے علاوہ Moby Dick اور Les Miserables شروع کی ہوئی ہیں مگر مکمل نہیں ہوئیں۔ فی الحال تو پڑھنے اور سمجھنے کی رفتار میں وہ روانی اور ذہن میں وہ شفافیت نہیں ہے جو اردو پڑھنے میں ہوتی ہے۔ دیکھیے کب تک یہ دھند صاف ہوتی ہے اور انگریزی پڑھنا میرے لیے اردو پڑھنے جیسا ہوجائے۔

Friday, December 2, 2011

زاہد سو رہا ہے۔۔۔

کئی دن ہوگئے کچھ تحریر کیے ہوئے۔ 

اپنے اس جملے سے ہمیں دلاور فگار صاحب کا مشہورِ زمانہ مصرعہ یاد آگیا:

ع           حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہوگئے۔۔۔

واقعی اب تو ہمیں لگنے لگا ہے ہمارے حالاتِ حاضرہ مستقلہ مستمرہ ہوگئے ہیں۔ جمود ہے کہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ زنگ ہے کہ لگتا چلا جا رہا ہے۔ کچھ ایام قبل ہم نے کتب پر جو ہلہ بولا تھا، اب وہ جوش بھی کچھ ٹھنڈا دکھائی دیتا ہے۔ کافی ساری کتب ان پڑھی موجود ہیں اور جنہیں جلد ختم کرنا ہے کیوں کہ اس مہینے میں کراچی کا عالمی کتب میلہ آرہا ہے۔ اور ہم اس دفعہ وہاں سے ٹھیک ٹھاک خریداری کرنے کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں۔

کتب میلے سے یاد آیا، پچھلے سال کراچی بین الاقوامی کتب میلے میں ہمیں فرہنگِ آصفیہ، جس کی عرصے سے خواہش تھی، سستے داموں مل رہی تھی، مگر نہ جانے کیوں ہم نے وہ چھوڑ دی۔ اب ویلکم بک پورٹ پر قیمت معلوم کی تو دل مسوس کر رہ گیا۔۔

خیر دوستو!

بات ہورہی تھی حالاتِ حاضرہ کی۔ ہماری مراد سیاست کے پیچ و خم سے نہیں، بلکہ ہمارے اپنے حالاتِ حاضرہ سے ہے۔ انسان جو کچھ سوچتا ہے وہ ہوتا نہیں۔ اسلیے ہم اب یہ سوچتے ہیں کہ اب جو بھی کام کریں گے سوچے بغیر بس عمل کر ڈالیں گے۔ تاکہ زندگی کی گاڑی کچھ تو آگے بڑھے۔ 


Tuesday, November 8, 2011

منتشر خیالات




(۲۷ اکتوبر ۲۰۱۱ کو رات ڈیڑھ بجے نیند نہ آنے کے سبب کچھ لکھنے کی ٹھانی۔۔اور منتشر سے الفاظ اور خیالات ہیں، امید ہےاحباب اغلاط سے صرفِ نظر کریں گے)


آج طبیعت ٹھیک نہیں تھی سارا دن۔ پچھلے دو دنوں سے انگلی کا کنارا اندرونی طور پر پک رہا ہے اور شدید دھوپ میں بائک کا سفر۔ آج صدرِ مملکت یا وزیرِ اعظم کے قافلے کی وجہ سے شاہراہِ فیصل کچھ دیر کو بند تھی اور اتفاق سے ہمیں بھی وہیں سے گزرنا تھا سڑی بسی دوپہر میں۔


اس تکلیف اور دھوپ کی شدت نے گھر آنے کے بعد بھی بے چین کیے رکھا۔ آدھی رات کے وقت 3 گھنٹے سے سونے کی کوشش کرتے ہوئے خیال آیا کہ منتشر خیالات کو جمع ہی کرلیا جائے۔

آگ کے شعلے برساتا سورج سر پر، اور آتش فشاں کے لاوے جیسا پگھلتا ہوا کولتار پیروں تلے۔ اس جگہ ٹریفک کھلنے کے انتظار میں کھڑے کھڑے اگر غلطی سے بائک کی ٹنکی پر یا ہیلمٹ پر ہاتھ لگ جاتا تو افسوس ہوتا کہ ہاتھوں کو ایک جگہ قرار کیوں نہیں۔۔


مزید یہ کہ گاڑیوں کے انجنوں کی گرمی منظر کو بھی پگھلا پگھلا دیتی ہے۔ جیسے صحرا میں دور کا منظر ہلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔۔


اس انتظار میں ذہن ناشائستگی کی حدوں کو پھلانگ چکا تھا۔ ساتھ کھڑا بائک سوار تو وہ کچھ فرما رہا تھا جو کہ صرف سنا ہی جا سکتا ہے۔ پیچھے دو ایمبولینسز کے بجتے ہوئے سائرن ،گویا فریاد کر رہے تھے، ہمیں اکسا رہے تھے کہ گذرنے والے قافلے سے پہلے ان چیلے چانٹوں اور شاہ کے وفاداروں کو سول نافرمانی تحریک کا مزا چکھا دیں۔ وہ شاہ کے وفادار جو کہ شاہراہِ فیصل کے ہر داخلی و خارجی رستے پر بند باندھے کھڑے تھے۔


شہرِ کراچی کا ٹریفک چل رہا ہو تو وبال اور رک جائے تو عذاب۔ جہاں بے ہنگم ہوجائے تو جھنجھلاہٹ خیز اور باسلیقہ چل رہا ہو تو انسانوں کو برداشت نہیں۔ 


چاروں سمتوں میں تا حدِ نگاہ اور تاحدِّ امکاں پھیلے ہوئے شہر میں "ویسٹ وہارف" سے "شمالی کراچی" تک کا سفر ایسا ہے جیسے کسی عاصی کا پلِ صراط کا سفر (الامان ۔۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے)۔۔ یہ سطریں ہم اس لیے نہیں لکھ رہے کہ آج پہلی مرتبہ ان دو مقامات کے درمیان سڑکیں ناپیں۔ ہم کالج کے زمانے میں جناح برج (المعروف بہ نیٹی جیٹی) گھومنے جاتے تھے؛ سندھ مدرسۃ الاسلام سے پیدل!! اور واپسی گھر تک بس میں ہوتی تھی۔ بہرحال یہ سطریں اس بڑھتے ہوئے دباؤ کی بناء پر ہیں جو غبارے کو دھماکے کی آخری حد پر لا کھڑا کرتا ہے۔


کراچی شہر پاکستان کی آبادی کا کم از کم 10 فی صد ہے۔ اور روز بروز یہ عدد اضافہ پذیر ہے۔ گاڑیاں گو کہ لوس اینجلس کی طرح 1:1 کے تناسب سے نہیں ہیں مگر سڑکیں اور ٹریفک کا شعور اس تناسب سے نہیں ہے جو کہ اس حجم اور اس اہمیت کے شہر کا خاصہ ہونا چاہیے۔


ان سطروں کا مقصد گو کہ ذاتی اور داخلی کیفیات کا احاطہ کرنا تھا مگر ہمیں اس مقام پر ایسا لگ رہا ہے کہ ہمیں ٹریفک سے سیاست، معاشرت اور بین الاقوامی تعلقات پر آنے میں دیر نہیں لگے گی، تو واپس آتے ہیں اصل بات کی طرف۔


انگلی کے جس درد نے اس وقت ہمیں پریشان کیے رکھا ہے وہ ہے تو ہلکا سا ہی مگر کافی دنوں کے بعد کوئی تکلیف ہوئی ہے۔ تو اس نے ذات کے نہاں خانوں میں چھپے درد اور اسکے ما بعد کو جگا دیا ہے۔ 


آپ غلط اندازے نہ لگائیے، یہ کلّی طور پر ذاتی اور انفرادی معاملہ ہے، وہ روگ نہیں جو عموماً تارے بھی گننے پر مجبور کردیتا ہے۔ ہمارا درد ہماری ذاتی خواہشات، زندگی کے مقاصد اور بہت سے ادھورے سفر ہیں۔ 


انسان جب بہت زیادہ سوچنے لگے تو اس کے ہاتھ پیر زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے سوچ اور عمل میں توازن ہونا چاہیے۔ جب نظر سفر کے بجائے فقط منزل پر مرکوز رہے اور زہد کے بجائے خیالِ زہد ہی پیشِ نظر رہے تو آدمی طریق در طریق، سفر در سفر بھول بھلیوں میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔ راہِ طریقت میں بھی یہی معاملہ ہے۔ لوگ شیخِ طریقت کو ہی "طریق" جان لیتے ہیں حالانکہ وہ تو ایسا سنگِ راہ ہے جو راستے بھر ساتھ ساتھ چلتا ہے۔


سوچتے ہیں زندگی سے کیا کیا کچھ لے کر اسے کیا کیا لوٹایا-

کہیں سے خواب لیے، کہیں سے ارادے لیے۔ کہیں سے ولولہ اور کہیں سے فقط جھڑکیاں۔


ابھی ہم چھوٹے ہی تھے کہ جہازوں کی آواز اور فضاؤں پر حکمرانی بھانے لگی، تو سوچا پائلٹ ہی بننا ہے۔جہازوں کو "ٹاٹا" کیا کرتے تھے۔پھر سوچتے تھے جب ہم مانندِ عقاب فضاؤں کا سینہ چیرتے ہوئے جب شہروں اور دیہاتوں پر سے گذریں گے تو کئی "امینوں" کے ہاتھ ہمارے لیے بھی فضا میں بلند ہوجائیں گے۔


بچپن سے لڑکپن اور پھر نوجوانی تک آتے آتے ادراک ہوا کہ "کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں۔۔۔کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق ہے"۔۔۔۔ اپنے شوق کو مار کر بھلا کون زندہ رہ سکتا ہے۔ اور ہم نے ایک شوق ہی کا قتل نہیں کیا بلکہ ہماری زندگی یکے بعد دیگرےشوق پالنے اور پھر اسکا قتل کرنے میں ہی گذری ہے۔۔


نوجوانی آتے آتے کمانڈو بننے کی دھن سمائی مگر جسامت اور نظر دونوں کمزور (اور کسی حد تک دل بھی)۔۔۔


کرکٹ سے بچپن ہی سے جنون کی حد تک محبت۔ ایسا جنون جو حقیقی معنیٰ میں رگوں میں دوڑتے خون کی مانند ہو۔ جس کی روانی جسم و جاں کو تروتازہ کردے اور مشامِ جاں کو معطر۔ مگر روزانہ 30 کلومیٹر کا سفر کرکے جامعہ جانا اور پھر واپس آنا اس قابل نہیں چھوڑتا تھا کہ اس جنون سے اپنی خرد کو جلا بخش سکتے۔ اس کے باوجود 2 سال قبل نیٹ پریکٹس کے لیے جاتے تھے اور وہ چند دن ہماری زندگی میں ہمیشہ لکھے رہیں گے، مدھم پڑجانے والے سنہری حروف کی طرح۔ے).


زمانۂ طالبعلمی کے شدید دباؤ کے باوجود ہم نے بھی Randy Pausch کی طرح اپنے خوابوں کی تعبیروں کی طرف دھیان دیا۔ اور اب اس دباؤ سے نکل کر ہمیں یوں لگتا ہے کہ فی الحال اعضاء اور اعصاب منتشر ہیں مگر دھن موجود اور سالم۔

(Randy Pausch کے بارے میں جاننے کے لیے یوٹیوب پر Really Achieving Your Childhood Dreams لکھ کر تلاش کیجیے).



زندگی ایک مسلسل خواب کی طرح گذاری۔ اب وقت ہے اسکی تعبیر میں روح پھونکنے کا۔ خوابوں کے یک رنگی کینوس میں قوسِ قزح کے رنگ بھرنے کا۔ 


ہم جب بہت تکلیف میں ہوتے ہیں تو تکلیف کو اور بھی زیادہ محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ہماری سوچ کا زاویہ وسیع ہوجاتا ہے اور ہم وہ کچھ لکھنے اور کہنے کے قابل ہوجاتے ہیں جو عام حالات میں ذہن کے اندر گرد کی دبیز تہہ تلے پڑا رہتا ہے۔ آج انگلی کی تکلیف اور سفر کی تھکان نے ہمارے ذہنی گھوڑوں کو دوڑا کر کچھ لکھوا ہی ڈالا۔۔