Showing posts with label میری شاعری. Show all posts
Showing posts with label میری شاعری. Show all posts

Friday, May 20, 2016

کتنا رنگیں تھا ہر منظر تیرے بعد۔۔۔۔ محمد امین


کتنا رنگیں تھا ہر منظر تیرے بعد
میں نے دیکھی دنیا اٹھ کر تیرے بعد

سب رستوں کی بھول بھلیاں یاد ہوئیں
گھوم رہا ہوں اختر اختر تیرے بعد

جھیلوں، نہروں، دریاؤں کی بات نہیں
بھاگ رہا تھا مجھ سے سمندر تیرے بعد

اچھا کیا جو زہروں سے مانوس کیا
مجھ کو ملنا تھا اک اژدر تیرے بعد

میخانے کی چوکھٹ پر اک تیرا گدا
روز پٹک کر روتا ہے سر تیرے بعد

شام گھنی جب ڈھل جائے ان زلفوں کی
بند کروں گا رات کا ہر در تیرے بعد

تیرے نقشِ پا میں سمٹ کر بیٹھیں گے
خاک رہے گی اپنے سر پر تیرے بعد

محمد امین قریشی​

Monday, February 24, 2014

انا الحق

مری خامشی ہے قسم سے انا الحق،
سزا وارِ دار و رسن ہے، انا الحق،
نہ بولوں تو منصور، بولوں تو مجرم،
بہر حال مجرم، برائے انا الحق..

محمد امین

Friday, November 18, 2011

غزل: نالہ کیا کیجے، فغاں کیا کیجے



بحرِ رمل میں میری ایک غزل۔ کافی اغلاط ہیں اس میں کوئی صاحب اصلاح فرمانا چاہیں تو ممنون ہونگا۔


 نالہ کیا کیجے، فغاں کیا کیجے،
دل نہیں لگتا یہاں، کیا کیجے،


دل تو اظہارِ تمنّا چاہے،
وہ نہیں سنتے، بیاں کیا کیجے،


شوخیٔ گل کا خدا حافظ ہو،
بلبلیں گریہ کناں،کیا کیجے،


جام سب خالی پڑے ہیں دل کے،
چل دیا پیرِ مغاں، کیا کیجے،


کب ملے ہیں حسینوں کے خطوط؟
چند تصویرِ بُتاں کیا کیجے،


چھوڑ کر بیٹھ گیا جو ہم کو،
اس کے بن جائیں کہاں، کیا کیجے،


شب سی تاریکی سرِ شام ہے کیوں,
دل مرا ڈوب گیا، کیا کیجے


محمد امین قریشی۔


ابھی مکمل اصلاح نہیں ہوپائی ہے اس غزل کی۔
مگر کافی حد تک اصلاح کے لیے ممنون ہوں:

اعجاز عبید انکل

Saturday, July 4, 2009

رہتا ہوں اب بوجھل بوجھل: میری ایک غزل

رہتا ہوں اب بوجھل بوجھل،
کاندھوں کاندھوں گویا دلدل،

نظروں سے ہے اوجھل اوجھل،
میری آنکھوں کا وہ کاجل،

زوروں پر رہتا ہے اکثر،
غم کا دریا، بہتا کاجل،

برسا تھا وہ عرصہ پہلے،
اب تک من ہے سارا جل تھل،

افسانے کا آخر طے ہے،
دل میں ہے پھر کیسی ہلچل؟

گھر سے نکلے ایسے میں جب،
گھِر کر آئے کالے بادل۔

(محمد امین قریشی)

فراغت کیسی ہوتی ہے؟" : ایک اور آزاد نظم"

فراغت کیسی ہوتی ہے؟؟

فراغت جب بھی ملتی ہے،
خوشی سے جھوم جاتا ہوں،
طَرَب کے نغمے گاتا ہوں،

ہزاروں کام ہوتے ہیں،
جنہیں عرصے سے کرنا ہو،
مگر جو وقت نہ ملنے پہ اکثر چھوڑ دیتا ہوں،

فراغت جب بھی ملتی ہے،
بس اک یلغار ہوتی ہے،
وہ سارے کام جو میں نے،
ادھورے چھوڑے ہوتے ہیں،
مجھے سب یاد آتے ہیں،

فراغت میں بھی اکثر پھر،
بہت مصروف ہوتا ہوں،
مگر پھر تھک کے میں بستر پہ اپنے بیٹھ جاتا ہوں،
تذبذب اور تھکن سے پھر،
بہت مجبور ہو کر تب،
وہ سارے کام میں یکبارگی میں چھوڑ دیتا ہوں!!!

(محمد امین قریشی)

۔۔


اس نظم کے وزن اور بحر کے حوالے سے میں نے دو مشاق شعراء سے مشورہ کیا، جن کی سند میرے لیے اعزاز ہے۔ ایک تو انڈیا کے ادیب و شاعر "اعجاز عبید" جو کہ ایک اون لائن جریدے "سمت" کے مدیر بھی ہیں۔ اور دوسرے پاکستان کے کہنہ مشق شاعر" محمد وارث"۔ :)۔