Friday, February 28, 2014

جو غمِ حبیب سے دور تھے وہ خود اپنی آگ میں جل گئے


جو غمِ حبیب سے دور تھے وہ خود اپنی آگ میں جل گئے
جو غمِ حبیب کو پاگئے وہ غموں سے ہنس کے نکل گئے

جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے
وہ نظر نظر سے گلے ملی تو بجھے چراغ بھی جل گئے

یہ شکستہ دید کی کروٹیں بھی بڑی حسین و جمیل تھیں
میں نظر جھکا کے تڑپ گیا وہ نظر بچا کے نکل گئے

نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی نہ بہار میں ہے کوئی روشنی
یہ نظر نظر کے چراغ ہیں کہیں بجھ گئے کہیں جل گئے

جو سنبھل سنبھل کے بہک گئے وہ فریب خوردہ راہ تھے
وہ مقامِ عشق کو پاگئے جو بہک بہک کے سنبھل گئے

شاعر لکھنوی

Monday, February 24, 2014

انا الحق

مری خامشی ہے قسم سے انا الحق،
سزا وارِ دار و رسن ہے، انا الحق،
نہ بولوں تو منصور، بولوں تو مجرم،
بہر حال مجرم، برائے انا الحق..

محمد امین