Wednesday, August 15, 2012

حب الوطنی

ہممم ۔۔۔ کہاں سے بات شروع کروں۔ ۔۔۔ 
حب الوطنی۔۔۔
بے ترتیبی میرا طرۂ امتیاز ہے۔ سو یہ تحریر بے ترتیب اور بے ربط ہی سہی۔ ربط (رطب؟؟) تلاش کرنا قاری کے ذمے، دروغ برگردنِ راوی ہی سہی۔
ملک کیا ہے؟ وطن کیا ہے؟ قوم کیا ہے؟ ملت کیا ہے؟ گھر کیا ہے؟ خاندان کیا ہے؟ میں کیا ہوں؟
کئی برس بیت گئے مجھے یومِ آزادی منائے ہوئے۔ جس گھر کی خاطر اجداد نے گردنیں کٹوادیں اس گھر کی تشکیل کا جشن اور خوشیاں منائے ہوئے۔۔۔
مگر۔۔۔
ترانے اب بھی میری روح میں سرشاری گھول دیتے ہیں۔۔۔
مگر۔۔۔
اب بھی میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ جاتی ہے، جب میں وطن کی محبت سے بھرپور نغمات، منظومات اور تقاریر سنتا ہوں۔۔
کچھ ہے۔۔۔ جو خون میں شامل ہے۔۔ کچھ ہے جو خون میں گرمی کا باعث ہے۔۔
کچھ۔۔۔ ہے۔۔
جس کی وجہ سے جذبات کا پرسکون سمندر ٹھاٹھیں مارنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔۔۔
کیا یہی حب الوطنی ہے؟
کیا مجھے وطن سے محبت ہے؟
کیا وطن سے محبت کرنا جائز ہے؟
کیا قوم پرستی ایک صحیح الدماغ شخص کا کام ہے؟
جغرافیہ۔۔۔ کیا ہوتا ہے؟ جغرافیے کا قوم پرستی سے کیا تعلق ہے؟
پاکستان کا نقشہ میرے لیے مقدس کیوں ہے؟
کچھ لوگوں کی طرف سے میرے اوپر مسلط کردہ جھنڈا مقدس کیوں ہے؟
اگر یہ جھنڈا لال ہوتا تو کیا ہوتا؟؟ ہرا ہے تو کیا ہوگیا؟ اگر یہ لال ہوتا تو کیا مجھے اس جھنڈے سے پیار نہ ہوتا؟
قومی ترانہ حفیظ نے لکھ ڈالا تو کیا ہوا؟؟ مجھے تو حفیظ کے قومی ترانے سے زیادہ "ہندو" جگن ناتھ آزاد کا لکھا ہوا:
"اے سرزمینِ پاک،
ذرے ترے ہیں آج، ستاروں سے تابناک،
روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک،
اے سرزمینِ پاک"
زیادہ سلیس، رواں، فصیح لگتا ہے اور دل کو لبھاتا ہے۔۔۔
اگر جگن ناتھ کا لکھا ہوا ترانہ قومی ترانہ قرار پاتا تو کیا ہوتا؟؟؟ کیا قوم کو اس سے محبت نہ ہوتی۔۔۔ بجائے ایک عدد مفرس (بلکہ فارسی) ترانے کے۔۔۔
اگر پاکستان کے نقشے میں افغانستان بھی شامل ہوتا، ایرانی بلوچستان بھی شامل ہوتا تو کیا ہوتا؟؟؟
کیا ملک "الہامی" بھی ہوتے ہیں؟؟؟ اگر الہامی ہوتے ہیں تو بنگلہ دیش کہاں گیا؟؟ کشمیر کہاں گیا؟ جونا گڑھ کہاں گیا؟ بلوچستان کہاں جا رہا ہے؟
اگر۔۔۔ پاکستان اللہ کی عطا ہے تو پہلا وزیرِ خارجہ اس جماعت کا کیوں تھا کہ جو متفقہ طور پر خارج از اسلام ہے۔
اگر۔۔۔ اگر۔۔۔ اگر۔۔ اگر۔۔۔ اگر۔۔۔ اگر۔۔۔ اگر۔۔۔
مگر۔۔۔ مجھے اپنی مٹی سے محبت ہے۔۔۔ میری مٹی پر اگر آج بھی انگریز کی حکومت ہوتی۔۔۔ تو بھی مجھے اس سے محبت ہوتی۔۔۔
کہ۔۔
چلچلاتی دھوپ میں سر پہ اک چادر تو ہے
لاکھ دیواریں شکستہ ہوں پر اپنا گھر تو ہے
پاکستان کا نام پاکستان کے بجائے کچھ اور ہوتا تو؟؟
خیبر پختونخواہ کا نام جب این ڈبلیو ایف پی تھا۔۔تو کیا اس کے لوگوں کو اس سے محبت نہیں تھی؟؟ اب خیبر پی کے ہوگیا ہے تو کیا زیادہ محبت ہوگئی ہے؟؟ افغانیہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ صرف خیبر ہوتا تو؟؟ مگر خیبر تو غالباً عرب میں ایک قلعے کا نام تھا نا؟؟ تو مستعار لیے گئے نام سے جغرافیے کے طور پر محبت؟؟؟
سب کچھ منتشر ہے۔۔۔ سب کچھ بکھرا ہے۔۔۔ میں خود کو مجتمع نہیں کر پاتا۔۔۔ میں خود کو سمیٹ نہیں پاتا۔۔۔
قوم پرستی۔۔۔ حب الوطنی۔۔۔ مجھے جڑنے نہیں دیتی۔۔۔
میں یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں۔۔۔
غالباً ۔۔۔ نہیں بلکہ یقیناً خارجی عوامل نے مجھے یہ منتشر الفاظ قرطاس پر مزید منتشر کرنے کے لیے مجبور کیا ہے۔۔۔
میں بہت کچھ کہنا لکھنا چاہتا ہوں ۔۔ مگر پھر۔۔۔ چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔ خوف سے۔۔۔ کہ کہیں لوگ مجھے برا نہ کہیں، برا نہ سمجھیں۔۔۔ لوگ مجھ سے بدگمان نہ ہوجائیں۔۔۔ لوگ مجھے طعن و تشنیع سے نہ نوازیں۔۔
کہ کہیں۔۔
لوگ مجھے "کافر" نہ قرار دے دیں۔۔
کہ کہیں۔۔
لوگ مجھے "غدار" نہ قرار دے دیں۔۔۔
انڈیا کا ایجنٹ نہ قرار دے دیں۔۔
استعمار کا puppet نہ قرار دے دیں۔۔۔
میں ڈرتا ہوں۔۔۔
میں نے دیکھا۔۔ ایک جگہ لکھا ہوا تھا۔۔۔ کہ پاکستان "مدینۂ ثانی" ہے۔۔۔
میں نے اللہ کی بارگاہ میں استغفار کی۔۔۔
میں نے عرض کی اے اللہ انہیں معاف کردے، یہ نا سمجھ ہیں۔۔
جاہلوں، جھوٹوں، کم تولنے والوں، دھوکہ دینے والوں کے دیس کو۔۔۔ نبی کے دیس سے ملا رہے ہیں۔۔
اللہ فرماتا ہے: "لا اقسم بہٰذا البلد۔۔۔ و انت حل بہٰذا البلد"۔۔۔
اللہ کسی شہر کی قسم اس وجہ سے فرما رہا ہے کہ اس کا حبیب اس شہر میں مقیم ہے۔۔ اور اجہل (ابو جہل نہیں) قسم کے لوگ ایک غیر ملک کو نبی کے دیس سے ملا رہے ہیں۔۔
ایک جگہ لکھا دیکھا کہ "پاکستان" کا عربی میں ترجمہ "مدینہ طیبہ" ہے۔۔۔
میرے منہ سے مغلظات کا طوفان امڈ پڑا۔۔۔ (اللہ میری مغفرت فرمائے۔۔۔ )
میرے محبوب نبی کے شہر کو اس ملک سے ملا رہے ہیں۔۔۔ جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔۔۔
یہ کس قسم کے لوگ ہیں؟؟
حب الوطنی کو قرآنی تقدس کا درجہ کیوں دے دیتے ہیں؟؟
کیا ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو ہندوستان سے محبت نہیں؟؟
کیا ہندوستان مسلمانوں کا ملک ہے؟ نہیں نا۔۔
کیا پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے؟؟؟
مجھے نہیں سمجھ آرہا میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔۔۔ میں نے بغیر کوشش کے اس تحریر کی بے ترتیبی اور بے ربطی برقرار رکھی ہے۔۔
شاید اس قسم کی تحریر کسی ربط (اور رطب و یابس) کی محتاج نہیں۔۔
"پاکستان اسی دن بن گیا تھا جس دن سندھ کی زمین پر محمد بن قاسم کے پیر لگے تھے"۔۔۔
ہاہاہاہاہاہااہ۔۔۔ ۔
پاکستان دوسرے ممالک سے زیادہ فوقیت رکھتا ہے کیا؟؟
Proud To Be Pakistani
اللہ فرماتا ہے (مفہوم): "ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم پہچانے جاؤ" (اگر غلط ہوں تو میری اصلاح کیجیے)۔۔
اور۔۔
نبی نے فرمایا: "کسی کو کسی پر فوقیت نہیں سوائے تقویٰ کے۔۔"
تو پاکستانی ہونا تفاخر کی بات کیسے ہوگیا؟؟؟
تو۔۔۔
کیا باقی اقوام اللہ کی مخلوق نہیں ہیں؟؟
کیا باقی ممالک اللہ کے بنائے ہوئے نہیں ہیں؟؟
کیا پاکستان سے زیادہ خوبصورت ملک دنیا میں کوئی نہیں؟؟
یعنی باقی دنیا سے اللہ ناراض تھا کہ جو اس نے باقی دنیا کو پاکستان سے کم حسن دیا؟؟
میں کیا لکھوں۔۔۔ میں بھول گیا میں کیا کیا لکھنا چاہ رہا تھا۔۔۔

Tuesday, March 27, 2012

آپ بہت عجیب ہیں: ڈوکٹر پیرزادہ قاسم

غم سے بہل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

سایۂ وصل کب سے ہے آپ کا منتظر مگر
ہجر میں جل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا ہے آپ نے
ہاتھ بھی مَل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

وقت نے، آرزو کی لَو، دیر ہوئی، بجھا بھی دی
اب بھی پگھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

زحمتِ ضربتِ دِگر دوست کو دیجئے نہیں
گر کے سنبھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

دائرہ وار ہی تو ہیں عشق کے راستے تمام
راہ بدل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

دشت کی ساری رونقیں، خیر سے گھر میں ہیں، تو کیوں
گھر سے نکل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

اپنی تلاش کا سفر ختم بھی کیجیے کبھی
خواب میں چل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

ڈوکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی

Thursday, March 8, 2012

حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی : جون ایلیا


حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی

ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی ، بات نہیں سنی گئی

بعد بھی تیرے جانِ جاں ، دل میں رہا عجب سماں
یاد رہی تیری یہاں، پھر تیری یاد بھی گئی

اس کی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے، عمر گزار دی گئی

اس کے وصال کے لئے، اپنے کمال کے لئے
حالتِ دل، کہ تھی خراب ،اور خراب کی گئی

تیرا فراق جانِ جاں! عیش تھا کیا میرے لئے
یعنی تیرے فراق میں خوب شراب پی گئی

اس کی گلی سے اٹھ کے میں آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی گئی


جون ایلیاء

بشکریہ: پاکستانیکا

Saturday, February 18, 2012

ابھی تو میں جوان ہوں: حفیظ جالندھری


حفیظ جالندھری صاحب کی مقبولِ عام نظم "ابھی تو میں جوان ہوں۔۔" جو کہ میرے اس بلوگ کی تھیم بھی ہے :)۔ کافی دنوں سے پوسٹ کرنے کا ارادہ تھا، جسے آج عملی جامہ پہنا ہی دیا۔۔۔۔

بشکریہ صریرِ خامۂ وارث از محمد وارث بھائی۔


ابھی تو میں جوان ہوں۔۔۔

ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پُر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا
اٹھا سبُو، سبُو اٹھا
سبُو اٹھا، پیالہ بھر
پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سمت کر نظر
سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں
افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجومِ مے کشاں
ہے سوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ہے بد گماں
سمجھ نہ مجھ کو ناتواں

خیالِ زہد ابھی کہاں
ابھی تو میں جوان ہوں

عبادتوں کا ذکر ہے
نجات کی بھی فکر ہے
جنون ہے ثواب کا
خیال ہے عذاب کا
مگر سنو تو شیخ جی
عجیب شے ہیں آپ بھی
بھلا شباب و عاشقی
الگ ہوئے بھی ہیں کبھی
حسین جلوہ ریز ہوں
ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطر بیز ہوں
تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
نگار ہائے فتنہ گر
کوئی اِدھر کوئی اُدھر
ابھارتے ہوں عیش پر
تو کیا کرے کوئی بشر
چلو جی قصّہ مختصر
تمھارا نقطۂ نظر

درست ہے تو ہو مگر
ابھی تو میں جوان ہوں

نہ غم کشود و بست کا
بلند کا نہ پست کا
نہ بود کا نہ ہست کا
نہ وعدۂ الست کا
امید اور یاس گم
حواس گم، قیاس گم
نظر کے آس پاس گم
ہمہ بجز گلاس گم
نہ مے میں کچھ کمی رہے
قدح سے ہمدمی رہے
نشست یہ جمی رہے
یہی ہما ہمی رہے
وہ راگ چھیڑ مطربا
طرَب فزا، الَم رُبا
اثر صدائے ساز کا
جگر میں آگ دے لگا
ہر ایک لب پہ ہو صدا
نہ ہاتھ روک ساقیا

پلائے جا پلائے جا
ابھی تو میں جوان ہوں

یہ گشت کوہسار کی
یہ سیر جوئبار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے
یہ گل رخوں کے قہقہے
کسی سے میل ہو گیا
تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا
یہ ہنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں
یہ رس بھری جوانیاں
اِدھر سے مہربانیاں
اُدھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمیں
نظارہ ہائے دل نشیں
انھیں حیات آفریں
بھلا میں چھوڑ دوں یہیں
ہے موت اس قدر قریں
مجھے نہ آئے گا یقیں

نہیں نہیں ابھی نہیں
ابھی تو میں جوان ہوں
——–

Thursday, February 2, 2012

بچپن: یادِ ماضی 2۔۔





پچھلی پوسٹ کی یہ اگلی قسط آنے میں بہت دیر ہو گئی۔ کچھ طبیعت لکھنے پر مائل بھی نہ تھی (رہی بھی کب ہے) اور کچھ گوں نا گوں مصروفیات۔ بہر حال، ہمارے بلوگ پر آنے والے ہیں بھی گنتی کے چند ہی افراد، تو ہم لکھیں بھی تو کس کے لیے؟؟

پچھلی یاد داشت تحریر کرنے کا محرک ہمارا اپنے آبائی علاقے میں عرصے بعد تمام گھر والوں کے ساتھ جا کر اپنے گھر کا معائنہ کرنا تھا۔ جس جگہ پر انسان کا بچپن گزرا ہو وہ جگہ ہمیشہ دل کے پاس رہتی ہے۔ اور اکثر خواب بھی انسان اسی ماحول میں دیکھتا ہے۔ مطالعہ کے ساتھ ساتھ جو تصور اشیاء کے بارے میں قائم ہوتے ہیں، وہ بھی اسی جگہ کے ساتھ مختص ہو جاتے ہیں۔ کم سے کم ہمارے ساتھ تو ایسا ہی ہوا ہے۔ کوئی کہانی یا نوول پڑھتے ہوئے واقعات اور مقامات کے تصور کے ساتھ وہی جگہیں ابھرتی ہیں کہ جہاں ہم نے اپنے سنہرے دن گزارے تھے۔ اسی وجہ سے غالباَ بچپن اور وہ جگہیں زیادہ لبھاتی ہیں۔ مگر اب سب کچھ پہلے سا تو نہیں رہا نا!!! ہر شخص یہی کہتا ہے۔۔۔کہ حالات اور دن رات پہلے سے نہیں رہے۔۔۔ شاعر کہتا ہے: "کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں، جاناں!"۔۔ مگر شاعر صاحب، زمانہ، ماحول، زندگی، دنیا، سب کچھ تو بدل جاتا ہے۔۔۔ زمین، آسمان، خوشبو، دیوار و در، رشتے ناتے، ہماری سوچیں، یہ سب بھی بدل جاتے ہیں، اور ہم انسانوں کے بدلنے کی وجہ بھی غالباً یہی ہے۔ یا پھر ان چیزوں کے بدلنے کی وجہ انسان کا بدل جانا ہے؟؟ اس بات کا فیصلہ واقعی مشکل ہے کہ کون کس پر دار و مدار کر رہا ہے۔ مگر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ "ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں" ۔۔۔ ایسا کیوں۔۔۔ "تبدیلی انسان کا خمیر ہے" ۔۔۔ایسا کیوں؟؟ اقبال عظیم مرحوم کا ایک شعر:

"اب تو چہرے کے خد و خال بھی پہلے سے نہیں،
کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤ گے"

ہمیں بچپن کی شدت سے یاد فقط اس لیے ہی نہیں آتی کہ وہ بے فکری کے دن تھے اور کھیل کود اپنا شیوہ۔ بلکہ ہمیں مشتاق احمد یوسفی والے "نوسٹیلجیا" نے مارا ہوا ہے۔ اور یہ نوسٹیلجیا غالباً کم عمری میں ہی یوسفی صاحب کی کتب پڑھنے کے بعد مزاج میں در آیا ہوگا۔ یا پھر یہ ہمارا طبع زاد نوسٹیلجیا ہے، اس بارے میں بھی حتمی طور پر ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ خیر، ان یادوں کے بارے میں ہمیں یوں لگتا ہے جیسے آپکا ماضی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاندار اس وجہ سے لگنے لگتا ہے کہ آپ کے تجربات آپ کو ماضی کے جھروکوں میں سے سنہری پل ہی دکھاتے ہیں، تلخیوں اور خامیوں کو ایسے چھان دیتے ہیں جیسے کسی پردے سے چھن کر آنے والی سورج کی روشنی! نہ نگاہوں کو خیرہ کرے، نہ آپ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارا کریں۔ ٹھنڈی، خوشگوار، سنہری دھوپ۔ جس کی کرنوں میں حدت بھی گوارا بلکہ مطلوبہ حد تک موجود۔ اور جب یہ دھوپ ختم ہوجائے تو اس کی تمنا اور تشنگی باقی۔ جیسے صحرا کے بھٹکے ہوئے پیاسے کو دو گھونٹ پانی۔ کیا ہم سب کو اپنا بچپن اور ماضی ایسے دو گھونٹوں جیسا ہی نہیں لگتا؟ کہ جیسے ابھی آیا تھا اور ابھی گزر گیا۔ ابھی تو بہت سے کام باقی تھے۔ ابھی تو اسے کھل کر جینا تھا۔ ابھی تو اس کی لذت سے قلب و جگر کو معمور بھی نہیں کیا تھا!! یا پھر یہ ایسا ہے کہ اس بچے نے ہوس میں مشروبِ زندگی سے اپنے شکم کو اس قدر لبالب بھر لیا کہ اس کی لذت ہونٹوں پر، دہن میں، زباں پر موجود و باقی اور حلق کو اس کی حلاوت سے تر کیے ہوئے ہے۔ اور آنے والے لمحوں میں اس لذت کی یاد دل کو تڑپاتی ہے، مچلاتی ہے کہ کاش! بچپن لوٹ آئے اور یہ جام دوبارہ ہونٹوں سے لگانا نصیب ہوں۔

بچپن میں ہر چیز اپنے سے بڑی معلوم ہوا کرتی ہے، دیو کی طرح، اونچی، وسیع و عریض۔ جیسے جیسے زندگی اور زمین کے طول و عرض میں ہماری آنکھیں پھیلتی ہیں، ہمیں اشیاء کے درست قد و قامت کا اندازہ ہوتا جاتا ہے۔ یہی حال شخصیت پرستی کا بھی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم جو قحط الرجال کا رونا مچاتے رہتے ہیں، اس کی وجہ بھی یہی آنکھوں کی خیرگی کم ہوتے جانا ہے۔ جبھی شاید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ "حسن تو دیکھنے والی آنکھ میں ہوتا ہے"۔ کیوں کہ ہم کسی شخص کو کسی وجہ سے بڑا اور عظیم مان لیتے ہیں، مگر اکثر اوقات ہمارا ہی تجربہ ہمارے اس اخذ کردہ نتیجے کو غلط ثابت کر دیتا ہے تو اس شخص کی شان ہماری نظروں میں گھٹ جاتی ہے۔ بات تو فقط اتنی ہے کہ پہلے ہمارا تجربہ کم وسیع اور نظر زیادہ سخی تھی۔ جیسے جیسے تجربہ بڑھا، نظر کوتاہ ہوتی گئی۔ حتیٰ کہ یہ کوتاہ نظری انسان کو خود پسندی اور تکبر میں بھی لے جا گراتی ہے۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ بلکہ سارا پیراگراف ہی معترضہ ہوگیا۔ جب ہم اپنے اس گھر میں ٹہل رہے تھے تو سوچ رہے تھے کوئی بارہ پندرہ برس قبل تو یہ دیواریں ہمیں دیو قامت دکھائی دیتی تھیں، گھر ایک محل سرا لگتا تھا، گلیاں کوچے اور سامنے والا پارک ایسے لگتا تھا جیسے سب کچھ بہت بڑا اور عظیم الشان ہو۔ اور چشمِ تصور نے بھی ایسا ہی کچھ خیال باندھا ہوا ہے۔ مگر یہ تو سب چیزیں معمول سے بھی چھوٹی اور پھیکی دکھائی دیتی ہیں۔ تو وہ بچپن کی شان کدھر گئی، وہ چمک دمک، وہ قامت و زیبائی کدھر گئی۔ کیا وہ صرف خواب و خیال تھا؟ اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تخیل پر "چیری بلوسم پولش" پھرتی گئی؟ اور آج یہ شاندار قلعے زمین بوس ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ جون ایلیاء کے اشعار ملاحظہ ہوں:

ہم رہے پر نہیں رہے آباد،
یاد کے گھر نہیں رہے آباد،

شہرِ دل میں عجب محلے تھے،
ان میں اکثر نہیں رہے آباد۔


مگر وہ خوشبو تو ہم محسوس کر سکتےہیں۔ کیوں کہ اس خوشبو کے لیے ہم قوتِ شامہ کے محتاج نہیں۔ تخیل کی پرواز جہانِ دگر میں پہنچا دیتی ہے، یہ تو پھر ہمارا دیکھا بھالا بچپن کا جہان ہے۔ "جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لیا"۔۔

یہ خوشبو سانسوں میں بسی رہنے کے لیے ہی موجود تھی شاید۔ زندگی بھی کیا خوبصورت چیز ہے۔ انسان اسے جیسا محسوس کرے یہ اسی روپ میں سامنے آتی ہے۔ ہم شاید ماضی کو ماضیٔ تمنائی سمجھتے ہیں، جبھی وہ ہمیں اتنا خوبصورت اور شاندار لگتا ہے۔ تمنا مر جائے تو زندگی کی خوبصورتی اور شان بھی کہاں برقرار رہتی ہے۔ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔۔۔۔۔ کی جگہ "تمنا کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا" ، ہونا چاہیے تھا J  ۔۔۔ ہم اپنے تخیل کو بھی تمنا کے تابع کر سکتے ہیں اور یہی تمنا ماضی کو بھی آپ کی مرضی کے مطابق ڈھال کر آپ کے سامنے لا کھڑا کر سکتی ہے!!