Tuesday, November 8, 2011

منتشر خیالات




(۲۷ اکتوبر ۲۰۱۱ کو رات ڈیڑھ بجے نیند نہ آنے کے سبب کچھ لکھنے کی ٹھانی۔۔اور منتشر سے الفاظ اور خیالات ہیں، امید ہےاحباب اغلاط سے صرفِ نظر کریں گے)


آج طبیعت ٹھیک نہیں تھی سارا دن۔ پچھلے دو دنوں سے انگلی کا کنارا اندرونی طور پر پک رہا ہے اور شدید دھوپ میں بائک کا سفر۔ آج صدرِ مملکت یا وزیرِ اعظم کے قافلے کی وجہ سے شاہراہِ فیصل کچھ دیر کو بند تھی اور اتفاق سے ہمیں بھی وہیں سے گزرنا تھا سڑی بسی دوپہر میں۔


اس تکلیف اور دھوپ کی شدت نے گھر آنے کے بعد بھی بے چین کیے رکھا۔ آدھی رات کے وقت 3 گھنٹے سے سونے کی کوشش کرتے ہوئے خیال آیا کہ منتشر خیالات کو جمع ہی کرلیا جائے۔

آگ کے شعلے برساتا سورج سر پر، اور آتش فشاں کے لاوے جیسا پگھلتا ہوا کولتار پیروں تلے۔ اس جگہ ٹریفک کھلنے کے انتظار میں کھڑے کھڑے اگر غلطی سے بائک کی ٹنکی پر یا ہیلمٹ پر ہاتھ لگ جاتا تو افسوس ہوتا کہ ہاتھوں کو ایک جگہ قرار کیوں نہیں۔۔


مزید یہ کہ گاڑیوں کے انجنوں کی گرمی منظر کو بھی پگھلا پگھلا دیتی ہے۔ جیسے صحرا میں دور کا منظر ہلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔۔


اس انتظار میں ذہن ناشائستگی کی حدوں کو پھلانگ چکا تھا۔ ساتھ کھڑا بائک سوار تو وہ کچھ فرما رہا تھا جو کہ صرف سنا ہی جا سکتا ہے۔ پیچھے دو ایمبولینسز کے بجتے ہوئے سائرن ،گویا فریاد کر رہے تھے، ہمیں اکسا رہے تھے کہ گذرنے والے قافلے سے پہلے ان چیلے چانٹوں اور شاہ کے وفاداروں کو سول نافرمانی تحریک کا مزا چکھا دیں۔ وہ شاہ کے وفادار جو کہ شاہراہِ فیصل کے ہر داخلی و خارجی رستے پر بند باندھے کھڑے تھے۔


شہرِ کراچی کا ٹریفک چل رہا ہو تو وبال اور رک جائے تو عذاب۔ جہاں بے ہنگم ہوجائے تو جھنجھلاہٹ خیز اور باسلیقہ چل رہا ہو تو انسانوں کو برداشت نہیں۔ 


چاروں سمتوں میں تا حدِ نگاہ اور تاحدِّ امکاں پھیلے ہوئے شہر میں "ویسٹ وہارف" سے "شمالی کراچی" تک کا سفر ایسا ہے جیسے کسی عاصی کا پلِ صراط کا سفر (الامان ۔۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے)۔۔ یہ سطریں ہم اس لیے نہیں لکھ رہے کہ آج پہلی مرتبہ ان دو مقامات کے درمیان سڑکیں ناپیں۔ ہم کالج کے زمانے میں جناح برج (المعروف بہ نیٹی جیٹی) گھومنے جاتے تھے؛ سندھ مدرسۃ الاسلام سے پیدل!! اور واپسی گھر تک بس میں ہوتی تھی۔ بہرحال یہ سطریں اس بڑھتے ہوئے دباؤ کی بناء پر ہیں جو غبارے کو دھماکے کی آخری حد پر لا کھڑا کرتا ہے۔


کراچی شہر پاکستان کی آبادی کا کم از کم 10 فی صد ہے۔ اور روز بروز یہ عدد اضافہ پذیر ہے۔ گاڑیاں گو کہ لوس اینجلس کی طرح 1:1 کے تناسب سے نہیں ہیں مگر سڑکیں اور ٹریفک کا شعور اس تناسب سے نہیں ہے جو کہ اس حجم اور اس اہمیت کے شہر کا خاصہ ہونا چاہیے۔


ان سطروں کا مقصد گو کہ ذاتی اور داخلی کیفیات کا احاطہ کرنا تھا مگر ہمیں اس مقام پر ایسا لگ رہا ہے کہ ہمیں ٹریفک سے سیاست، معاشرت اور بین الاقوامی تعلقات پر آنے میں دیر نہیں لگے گی، تو واپس آتے ہیں اصل بات کی طرف۔


انگلی کے جس درد نے اس وقت ہمیں پریشان کیے رکھا ہے وہ ہے تو ہلکا سا ہی مگر کافی دنوں کے بعد کوئی تکلیف ہوئی ہے۔ تو اس نے ذات کے نہاں خانوں میں چھپے درد اور اسکے ما بعد کو جگا دیا ہے۔ 


آپ غلط اندازے نہ لگائیے، یہ کلّی طور پر ذاتی اور انفرادی معاملہ ہے، وہ روگ نہیں جو عموماً تارے بھی گننے پر مجبور کردیتا ہے۔ ہمارا درد ہماری ذاتی خواہشات، زندگی کے مقاصد اور بہت سے ادھورے سفر ہیں۔ 


انسان جب بہت زیادہ سوچنے لگے تو اس کے ہاتھ پیر زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے سوچ اور عمل میں توازن ہونا چاہیے۔ جب نظر سفر کے بجائے فقط منزل پر مرکوز رہے اور زہد کے بجائے خیالِ زہد ہی پیشِ نظر رہے تو آدمی طریق در طریق، سفر در سفر بھول بھلیوں میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔ راہِ طریقت میں بھی یہی معاملہ ہے۔ لوگ شیخِ طریقت کو ہی "طریق" جان لیتے ہیں حالانکہ وہ تو ایسا سنگِ راہ ہے جو راستے بھر ساتھ ساتھ چلتا ہے۔


سوچتے ہیں زندگی سے کیا کیا کچھ لے کر اسے کیا کیا لوٹایا-

کہیں سے خواب لیے، کہیں سے ارادے لیے۔ کہیں سے ولولہ اور کہیں سے فقط جھڑکیاں۔


ابھی ہم چھوٹے ہی تھے کہ جہازوں کی آواز اور فضاؤں پر حکمرانی بھانے لگی، تو سوچا پائلٹ ہی بننا ہے۔جہازوں کو "ٹاٹا" کیا کرتے تھے۔پھر سوچتے تھے جب ہم مانندِ عقاب فضاؤں کا سینہ چیرتے ہوئے جب شہروں اور دیہاتوں پر سے گذریں گے تو کئی "امینوں" کے ہاتھ ہمارے لیے بھی فضا میں بلند ہوجائیں گے۔


بچپن سے لڑکپن اور پھر نوجوانی تک آتے آتے ادراک ہوا کہ "کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں۔۔۔کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق ہے"۔۔۔۔ اپنے شوق کو مار کر بھلا کون زندہ رہ سکتا ہے۔ اور ہم نے ایک شوق ہی کا قتل نہیں کیا بلکہ ہماری زندگی یکے بعد دیگرےشوق پالنے اور پھر اسکا قتل کرنے میں ہی گذری ہے۔۔


نوجوانی آتے آتے کمانڈو بننے کی دھن سمائی مگر جسامت اور نظر دونوں کمزور (اور کسی حد تک دل بھی)۔۔۔


کرکٹ سے بچپن ہی سے جنون کی حد تک محبت۔ ایسا جنون جو حقیقی معنیٰ میں رگوں میں دوڑتے خون کی مانند ہو۔ جس کی روانی جسم و جاں کو تروتازہ کردے اور مشامِ جاں کو معطر۔ مگر روزانہ 30 کلومیٹر کا سفر کرکے جامعہ جانا اور پھر واپس آنا اس قابل نہیں چھوڑتا تھا کہ اس جنون سے اپنی خرد کو جلا بخش سکتے۔ اس کے باوجود 2 سال قبل نیٹ پریکٹس کے لیے جاتے تھے اور وہ چند دن ہماری زندگی میں ہمیشہ لکھے رہیں گے، مدھم پڑجانے والے سنہری حروف کی طرح۔ے).


زمانۂ طالبعلمی کے شدید دباؤ کے باوجود ہم نے بھی Randy Pausch کی طرح اپنے خوابوں کی تعبیروں کی طرف دھیان دیا۔ اور اب اس دباؤ سے نکل کر ہمیں یوں لگتا ہے کہ فی الحال اعضاء اور اعصاب منتشر ہیں مگر دھن موجود اور سالم۔

(Randy Pausch کے بارے میں جاننے کے لیے یوٹیوب پر Really Achieving Your Childhood Dreams لکھ کر تلاش کیجیے).



زندگی ایک مسلسل خواب کی طرح گذاری۔ اب وقت ہے اسکی تعبیر میں روح پھونکنے کا۔ خوابوں کے یک رنگی کینوس میں قوسِ قزح کے رنگ بھرنے کا۔ 


ہم جب بہت تکلیف میں ہوتے ہیں تو تکلیف کو اور بھی زیادہ محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ہماری سوچ کا زاویہ وسیع ہوجاتا ہے اور ہم وہ کچھ لکھنے اور کہنے کے قابل ہوجاتے ہیں جو عام حالات میں ذہن کے اندر گرد کی دبیز تہہ تلے پڑا رہتا ہے۔ آج انگلی کی تکلیف اور سفر کی تھکان نے ہمارے ذہنی گھوڑوں کو دوڑا کر کچھ لکھوا ہی ڈالا۔۔

No comments :

Post a Comment