Thursday, February 2, 2012

بچپن: یادِ ماضی 2۔۔





پچھلی پوسٹ کی یہ اگلی قسط آنے میں بہت دیر ہو گئی۔ کچھ طبیعت لکھنے پر مائل بھی نہ تھی (رہی بھی کب ہے) اور کچھ گوں نا گوں مصروفیات۔ بہر حال، ہمارے بلوگ پر آنے والے ہیں بھی گنتی کے چند ہی افراد، تو ہم لکھیں بھی تو کس کے لیے؟؟

پچھلی یاد داشت تحریر کرنے کا محرک ہمارا اپنے آبائی علاقے میں عرصے بعد تمام گھر والوں کے ساتھ جا کر اپنے گھر کا معائنہ کرنا تھا۔ جس جگہ پر انسان کا بچپن گزرا ہو وہ جگہ ہمیشہ دل کے پاس رہتی ہے۔ اور اکثر خواب بھی انسان اسی ماحول میں دیکھتا ہے۔ مطالعہ کے ساتھ ساتھ جو تصور اشیاء کے بارے میں قائم ہوتے ہیں، وہ بھی اسی جگہ کے ساتھ مختص ہو جاتے ہیں۔ کم سے کم ہمارے ساتھ تو ایسا ہی ہوا ہے۔ کوئی کہانی یا نوول پڑھتے ہوئے واقعات اور مقامات کے تصور کے ساتھ وہی جگہیں ابھرتی ہیں کہ جہاں ہم نے اپنے سنہرے دن گزارے تھے۔ اسی وجہ سے غالباَ بچپن اور وہ جگہیں زیادہ لبھاتی ہیں۔ مگر اب سب کچھ پہلے سا تو نہیں رہا نا!!! ہر شخص یہی کہتا ہے۔۔۔کہ حالات اور دن رات پہلے سے نہیں رہے۔۔۔ شاعر کہتا ہے: "کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں، جاناں!"۔۔ مگر شاعر صاحب، زمانہ، ماحول، زندگی، دنیا، سب کچھ تو بدل جاتا ہے۔۔۔ زمین، آسمان، خوشبو، دیوار و در، رشتے ناتے، ہماری سوچیں، یہ سب بھی بدل جاتے ہیں، اور ہم انسانوں کے بدلنے کی وجہ بھی غالباً یہی ہے۔ یا پھر ان چیزوں کے بدلنے کی وجہ انسان کا بدل جانا ہے؟؟ اس بات کا فیصلہ واقعی مشکل ہے کہ کون کس پر دار و مدار کر رہا ہے۔ مگر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ "ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں" ۔۔۔ ایسا کیوں۔۔۔ "تبدیلی انسان کا خمیر ہے" ۔۔۔ایسا کیوں؟؟ اقبال عظیم مرحوم کا ایک شعر:

"اب تو چہرے کے خد و خال بھی پہلے سے نہیں،
کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤ گے"

ہمیں بچپن کی شدت سے یاد فقط اس لیے ہی نہیں آتی کہ وہ بے فکری کے دن تھے اور کھیل کود اپنا شیوہ۔ بلکہ ہمیں مشتاق احمد یوسفی والے "نوسٹیلجیا" نے مارا ہوا ہے۔ اور یہ نوسٹیلجیا غالباً کم عمری میں ہی یوسفی صاحب کی کتب پڑھنے کے بعد مزاج میں در آیا ہوگا۔ یا پھر یہ ہمارا طبع زاد نوسٹیلجیا ہے، اس بارے میں بھی حتمی طور پر ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ خیر، ان یادوں کے بارے میں ہمیں یوں لگتا ہے جیسے آپکا ماضی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاندار اس وجہ سے لگنے لگتا ہے کہ آپ کے تجربات آپ کو ماضی کے جھروکوں میں سے سنہری پل ہی دکھاتے ہیں، تلخیوں اور خامیوں کو ایسے چھان دیتے ہیں جیسے کسی پردے سے چھن کر آنے والی سورج کی روشنی! نہ نگاہوں کو خیرہ کرے، نہ آپ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارا کریں۔ ٹھنڈی، خوشگوار، سنہری دھوپ۔ جس کی کرنوں میں حدت بھی گوارا بلکہ مطلوبہ حد تک موجود۔ اور جب یہ دھوپ ختم ہوجائے تو اس کی تمنا اور تشنگی باقی۔ جیسے صحرا کے بھٹکے ہوئے پیاسے کو دو گھونٹ پانی۔ کیا ہم سب کو اپنا بچپن اور ماضی ایسے دو گھونٹوں جیسا ہی نہیں لگتا؟ کہ جیسے ابھی آیا تھا اور ابھی گزر گیا۔ ابھی تو بہت سے کام باقی تھے۔ ابھی تو اسے کھل کر جینا تھا۔ ابھی تو اس کی لذت سے قلب و جگر کو معمور بھی نہیں کیا تھا!! یا پھر یہ ایسا ہے کہ اس بچے نے ہوس میں مشروبِ زندگی سے اپنے شکم کو اس قدر لبالب بھر لیا کہ اس کی لذت ہونٹوں پر، دہن میں، زباں پر موجود و باقی اور حلق کو اس کی حلاوت سے تر کیے ہوئے ہے۔ اور آنے والے لمحوں میں اس لذت کی یاد دل کو تڑپاتی ہے، مچلاتی ہے کہ کاش! بچپن لوٹ آئے اور یہ جام دوبارہ ہونٹوں سے لگانا نصیب ہوں۔

بچپن میں ہر چیز اپنے سے بڑی معلوم ہوا کرتی ہے، دیو کی طرح، اونچی، وسیع و عریض۔ جیسے جیسے زندگی اور زمین کے طول و عرض میں ہماری آنکھیں پھیلتی ہیں، ہمیں اشیاء کے درست قد و قامت کا اندازہ ہوتا جاتا ہے۔ یہی حال شخصیت پرستی کا بھی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم جو قحط الرجال کا رونا مچاتے رہتے ہیں، اس کی وجہ بھی یہی آنکھوں کی خیرگی کم ہوتے جانا ہے۔ جبھی شاید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ "حسن تو دیکھنے والی آنکھ میں ہوتا ہے"۔ کیوں کہ ہم کسی شخص کو کسی وجہ سے بڑا اور عظیم مان لیتے ہیں، مگر اکثر اوقات ہمارا ہی تجربہ ہمارے اس اخذ کردہ نتیجے کو غلط ثابت کر دیتا ہے تو اس شخص کی شان ہماری نظروں میں گھٹ جاتی ہے۔ بات تو فقط اتنی ہے کہ پہلے ہمارا تجربہ کم وسیع اور نظر زیادہ سخی تھی۔ جیسے جیسے تجربہ بڑھا، نظر کوتاہ ہوتی گئی۔ حتیٰ کہ یہ کوتاہ نظری انسان کو خود پسندی اور تکبر میں بھی لے جا گراتی ہے۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ بلکہ سارا پیراگراف ہی معترضہ ہوگیا۔ جب ہم اپنے اس گھر میں ٹہل رہے تھے تو سوچ رہے تھے کوئی بارہ پندرہ برس قبل تو یہ دیواریں ہمیں دیو قامت دکھائی دیتی تھیں، گھر ایک محل سرا لگتا تھا، گلیاں کوچے اور سامنے والا پارک ایسے لگتا تھا جیسے سب کچھ بہت بڑا اور عظیم الشان ہو۔ اور چشمِ تصور نے بھی ایسا ہی کچھ خیال باندھا ہوا ہے۔ مگر یہ تو سب چیزیں معمول سے بھی چھوٹی اور پھیکی دکھائی دیتی ہیں۔ تو وہ بچپن کی شان کدھر گئی، وہ چمک دمک، وہ قامت و زیبائی کدھر گئی۔ کیا وہ صرف خواب و خیال تھا؟ اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تخیل پر "چیری بلوسم پولش" پھرتی گئی؟ اور آج یہ شاندار قلعے زمین بوس ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ جون ایلیاء کے اشعار ملاحظہ ہوں:

ہم رہے پر نہیں رہے آباد،
یاد کے گھر نہیں رہے آباد،

شہرِ دل میں عجب محلے تھے،
ان میں اکثر نہیں رہے آباد۔


مگر وہ خوشبو تو ہم محسوس کر سکتےہیں۔ کیوں کہ اس خوشبو کے لیے ہم قوتِ شامہ کے محتاج نہیں۔ تخیل کی پرواز جہانِ دگر میں پہنچا دیتی ہے، یہ تو پھر ہمارا دیکھا بھالا بچپن کا جہان ہے۔ "جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لیا"۔۔

یہ خوشبو سانسوں میں بسی رہنے کے لیے ہی موجود تھی شاید۔ زندگی بھی کیا خوبصورت چیز ہے۔ انسان اسے جیسا محسوس کرے یہ اسی روپ میں سامنے آتی ہے۔ ہم شاید ماضی کو ماضیٔ تمنائی سمجھتے ہیں، جبھی وہ ہمیں اتنا خوبصورت اور شاندار لگتا ہے۔ تمنا مر جائے تو زندگی کی خوبصورتی اور شان بھی کہاں برقرار رہتی ہے۔ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔۔۔۔۔ کی جگہ "تمنا کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا" ، ہونا چاہیے تھا J  ۔۔۔ ہم اپنے تخیل کو بھی تمنا کے تابع کر سکتے ہیں اور یہی تمنا ماضی کو بھی آپ کی مرضی کے مطابق ڈھال کر آپ کے سامنے لا کھڑا کر سکتی ہے!!


No comments :

Post a Comment