Tuesday, November 8, 2011

کوّا چلا ہنس کی چال۔۔۔

کوا چلا ہنس کی چال۔۔۔۔
(ہماری اردو کی حالتِ زار)
محمد امینؔ  قریشی
قوموں کی ثقافت، تہذیب اور ترقی میں انکی زبان کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ زبان صرف رابطے ہی کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ تخلیق و ایجاد اور معاشرے کی روحانی آسودگی (spiritual peace) میں بھی مدد کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آدمی کی سوچ اور خواب اسکی مادری زبان میں ہی ہوتے ہیں، چاہے وہ خواب نیند کے دوران دیکھے جائیں یا جاگتے ہوئے۔ اور یہ بھی کہ تخلیق اور ایجاد (Invention and innovation) ہماری سوچ اور خواب کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔ تو ہم بلاشبہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تخلیق کے لیے انسان کو اپنی زبان کا مکمل علم ہونا چاہیے۔

ہماری زبان اردو جس نے دہلی کے بازاروں، لکھنؤ کے مشاعروں اور حیدرآباد دکن کے دربار میں پرورش پائی اور جس کی بازگشت(Echo) لاہور اور کراچی کے ادبی حلقوں (Literary circles) میں اب تک گونجتی ہے، آج دنیا کے ایک بہت بڑے خطے، جنوبی ایشیاء میں کروڑوں لوگوں کی روزمرہ کی زبان ہے۔ اردو جو کہ "نستعلیق" رسم الخط (script) میں لکھی جاتی ہے، عربی، فارسی، سنسکرت اور ترکی زبانوں سے مل کر بنی ہے۔ مگر اردو آج ویسی زبان نہیں رہی جیسی آج سے کچھ سالوں پہلے ہوتی تھی۔ اردو زبان کی ترویج و ترقی (development & promotion) میں اردو شاعری اور ادب کا بہت گہرا ہاتھ رہا ہے۔ یہ صرف  پچھلی صدی کا ہی ذکر نہیں بلکہ دو ڈھائی سو سال پہلے جب اردو تشکیل پا رہی تھی اس وقت بھی شاعری نے ہی اسے سہارادیا تھا۔ یہی وجہ ہے  کہ جنوبی ایشیاء میں  آج تک جتنے بھی فلمی گیت اور غزلیں لکھی گئی ہیں ان میں سے اکثر اردو میں ہی رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نہ صرف اردو شاعری میں بلکہ عام بول چال میں بھی بھاری بھرکم الفاظ متروک (dead) ہوتے گئے۔ خیر الفاظ کا آنا جانا تو زبانوں میں لگا ہی رہتا ہے، مگر جو کچھ پچھلے چند سالوں میں اردو زبان کے ساتھ ہوا ہے اس نے ہماری تہذیب اور ثقافت پر بہت شدید ضربیں لگائی ہیں۔

جس طرح انگریزی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہم نے اپنی ثقافت کو گہنا  دیا ہے(distort) وہ سب کے سامنے ہے۔ تخلیق کا جو عنصر اردو کے شروع کے دور میں اور حتیٰ کہ پچھلی صدی کے شعر و ادب (literature) میں کھل کر نظر آیا وہ اب ہماری قوم سے مفقود(disappear) ہوتا جا رہا ہے۔ہماری قوم ایجادات کے معاملے میں بھی دوسری قوموں پر انحصار کرتی ہے کیوں کہ ہم نے اپنی اس تخلیقی صلاحیت  (creativity)پر بھروسہ کرنا نہیں سیکھا جو انسان کی سوچ میں اس کی اپنی مادری زبان کی صورت میں بھری ہوتی ہے۔ ہماری قوم نے خود کو آدھا تیتر جیسا بھی رنگ لیا اور آدھا بٹیر جیسا بھی اسی لیے ہم ویسے خالص نہیں ہیں جیسا انسان اپنی روایات اور ثقافت سے جڑ کر رہتا ہے۔ یہ بات کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انگریزی سیکھنا یا بولنا کوئی غلط بات ہے، بلکہ دوسری زبان  کو اپنی زبان میں اس حد تک شامل کر لینا کہ اپنی زبان کا حال حلیہ ہی بگڑ کر رہ جائے، یہ کسی بھی قوم کے مردہ ہونے کی نشانی ہے۔ کسی اور  ثقافت کو وقت کے تقاضے (need of the hour) کے نام پر اپنی ثقافت پر حاوی کرلینا ترقی یافتہ قوموں کی نشانی نہیں ہے۔ ہم نے شروع میں لکھا کہ تخلیق اور ایجاد کے لیے  اپنی زبان پر مکمل عبور اور معاشرے میں اس حوالے سے یکسانیت (harmony) بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔  جتنی بھی قومیں اب تک ترقی یافتہ ہیں وہ سب اپنی زبان میں ہی کمالِ فن (excellence) حاصل کر کے ہی دنیا میں سر اٹھا کر جینے کے لائق ہوئی ہیں۔

ہم یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انٹرنیٹ اور "جادوئی ڈبیا" یعنی موبائل فون کے اس انگریزی دور میں کتنے ہی لوگ ایسے ہونگے جنہوں نے بہت عرصے سے اپنا اور اپنے دوستوں کا نام اردو میں لکھا نہیں دیکھا ہوگا، حالانکہ کچھ موبائل فون میں اردو میں لکھنے کا بھی اختیار ہوتا ہے۔ مگر بہت سے لوگوں کو تو اردو درست پڑھنی بھی نہیں آتی۔  اور جہاں تک جدید ایجادات کا تعلق ہے تو ہمیں ان کے لیےاردو میں بھی اسی زبان کے الفاظ شامل کرنے پڑتے ہیں کہ جس سے اس ایجاد کا تعلق ہوتا ہے۔ اور اردو زبان کا حسن یہی ہے کہ وہ  دوسری زبانوں کو اپنے اندر جذب بھی کرلیتی ہے۔ مخصوص اصطلاحات(terms) کی حد تک تو یہ بات قابلِ قبول ہے لیکن جس چیز کے لیے اردو میں پہلے ہی سے کوئی مناسب لفظ موجود ہو اسے بھی انگریز کا کلمہ پڑھا دینا اردو کے لیے زہرِ قاتل ہے۔اسی طرح گفتگو کے دوران  ایک جملہ انگریزی میں بولنا پھر آدھا اردومیں پھر اگلا جملہ انگریزی میں بولنا ، یہ ملغوبہ (mixture) ہماری نسل کو اردو زبان سے دور کر رہا ہے۔نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہم نے دنیا میں اپنی شناخت کھو رہے ہیں کیوں کہ ہم نے اپنی زبان کی ثقافت اور روایات کو پروان نہیں چڑھایا، بلکہ دنیا کے ساتھ چلنے کی دھن میں جدیدیت کے دیوتا کی بھنیٹ چڑھا دیا۔

سیانے کہتے ہیں کہ اگر آپ نے آج اپنے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچا تو آپکی قسمت کے فیصلے دوسرے لوگ کر رہے ہونگے۔ ایک قوم کے طور پر یہ بات ہم پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ تہذیب و ثقافت سے لے کر علم اور تاریخ تک ہم نے کسی بھی چیز کے بارے میں خود فیصلہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اپنی ترجیحات (priorities) کا تعین نہیں کر سکے۔ ہم نے اپنی ثقافت کو بوجھ اور جدید دور سے متصادم (conflicting) سمجھ کر اپنے معاشرے سے نکال باہر کیا، اسی وجہ سے آج ہم دوسروں کی ثقافت پر پل رہے ہیں۔ ہم نے اپنی تاریخ سے کوئی واسطہ نہیں رکھا، کہیں ایسا نہ ہوکہ  جو ہمارا آج ہے اسکی لکھی جانے والی تاریخ کسی اور کی مرہونِ منت ہو۔ نابینا مگر دانا شاعر اقبالؔ عظیم  نے خوب لکھا ہے:

اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤگے،
خواب ہوجاؤگے افسانوں میں ڈھل جاؤگے،

اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا،
سرخ شعلوں سے جو کھیلوگے تو جل جاؤگے،

اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو،
سنگِ مرمر پہ چلوگے تو پھسل جاؤگے۔۔

No comments :

Post a Comment